منڈی

تحریر: انور ساجدی
2018 کے سینیٹ انتخابات کے موقع پر زرداری پر الزام لگاتھا کہ انہوں نے اپنے دو امیدواروں بہرہ مند منگی اور روبینہ خالد کو پشتونخواء سے کامیاب کروایا تھا لیکن دو روز قبل سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کی جو رسوا کن ویڈیو لیک ہوئی ہے اس میں کروڑوں روپے وصول کرنے والے تحریک انصاف کے ایم پی اے نکلے بلکہ موجودہ وزیر قانون کو عہدے سے برطرف کردیا گیا پی ٹی آئی کے ایک رکن عبیداللہ مایار نے انکشاف کیا ہے کہ لین دین اس وقت کے اسپیکر قیصر کے گھر پر ہوا جبکہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اس نادر منڈی کا اہتمام کروایا تھا عمران خان نے سلطان محمد کو تو وزارت سے برطرف کردیا لیکن ہاؤس ٹریڈنگ کے اصل ذمہ دار پرویز خٹک پر ان کا بس نہیں چلتا کیونکہ ان کے خلاف کارروائی سے پارٹی کے اندر ایک دھڑا بغاوت کردے گا جس سے مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کو اچھا خاصا نقصان ہوگا یہی خوف ہے کہ وزیراعظم سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں کہ انتخابات اوپن ہوں تاکہ بغاوت یا ووٹ بیچنے کا خطرہ ٹل جائے ایسے وقت میں جبکہ تحریک انصاف کو سینیٹ میں اکثریت درکار ہے اس کیلئے مختلف مسائل سر اٹھا رہے ہیں کہنے کو تو حکومت نے اوپن بیلٹ کیلئے ایک آرڈریننس جاری کیا ہے لیکن معاملے کو سپریم کورٹ بھی لے گئی ہے اگر سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا تو انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہونگے اگر اس نے معاملہ واپس بھیج دیا تو حکومت اپنے منصوبے پر عمل کی کوشش کرے گی حکومت جو بھی کرے سینیٹ کے آئندہ انتخابات متنازعہ بنتے جارہے ہیں تحریک انصاف کو فکر لاحق ہے کہ اگر سینیٹ میں اس کی اکثریت نہیں آئی تو وہ اپنے مستقبل کے سیاسی و آئینی اہداف کیسے پورے کرے گی اگر وہ اپنے اہداف پورے نہ کرسکی تو اس کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا جبکہ سیاسی محاذ پر بھی اسے بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مولانا نے اعلان کیا ہے کہ مارچ میں مارچ ہوگا جبکہ بلاول صاحب نے فرمایا ہے کہ مارچ ڈی چوک پر جاکر وزیراعظم کے استعفے کے بعد ختم ہوگا یہ معاملات تو اپنی جگہ حکومت کیلئے مصیبتوں کا ایک اور پہاڑ بھی کھڑا ہوگیا ہے سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافہ کیلئے سراپا احتجاج ہیں اسلام آباد میں کافی عرصہ بعد محنت کشوں کا ایک روح پرور اجتماج دیکھنے میں آیا حکومت نے مذاکرات کی بجائے حسب سابق یا سابق حکومتوں کی طرح طاقت اور تشدد سے کام لیا زبردست شیلنگ کی گئی لیکن اس تشدد کے باوجود ملازمین نے صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا چونکہ یہ ایجی ٹیشن تنخواہوں میں 40 فیصد اضافہ کیلئے ہے لہٰذا اس کے زیادہ دیر برقرار رہنے کاامکان نہیں ہے جس وقت حکومت مطالبات منظور کرلے ملازمین ہنسی خوشی گھروں کو چلے جائیں گے لیکن ملازمین کا ایجی ٹیشن محض ایک ٹریلر ہے اگر مہنگائی، بیروزگاری، تیل، بجلی اور گیس کی قیمتیں اس طرح بڑھتی گئیں تو عوام الناس بھی سڑکوں پر آسکتے ہیں اور اس طرح کی تحریک شروع ہوسکتی ہے جو 1968، 1969 میں ایوب خان کے خلاف چلی تھی جس کا نتیجہ ایوب خان کی رخصتی کی صورت میں نکلا تھا ایک اور تحریک 1977 میں بھٹو کے خلاف چلی تھی اگرچہ عوام باہر نکلے تھے لیکن اس تحریک کے پیچھے جنرل ضیاء الحق کا ہاتھ تھا تاکہ انہیں ملک پر قبضے کا موقع مل سکے۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس کے خلاف عوامی تحریک کافی عرصہ پہلے شروع ہوسکتی تھی لیکن اپوزیشن کی کمزوری نے اس تحریک کا راستہ روکے رکھا ہے خود اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ اس کے جلسوں میں صرف پارٹی کارکن شرکت کررہے ہیں عوامی شرکت کم ہے جس دن اپوزیشن عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئی اس حکومت کا چلنا مشکل ہوجائے گا اپوزیشن خود کنفیوژن کی شکار ہے مثال کے طور پر اسے تحریک انصاف کے اراکین کی خرید و فروخت کے مسئلہ کو عوام تک لے جانا چاہئے کیونکہ عمران خان تو دوسروں پر الزام لگاتے ہیں جبکہ ویڈیو سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے اپنے وزیر اعلیٰ، اسپیکر اور متعدد اراکین اس میں ملوث تھے۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز راولپنڈی کی نواحی بستیکلرسیداں میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سنگین الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمان سب سے بڑے سوداگر ہیں انہوں نے ہر مرتبہ سینیٹ کے انتخابات میں اپنے اراکین بیچ کر دولت کمائی وزیراعظم کے اس سنگین الزام پر یقینا مولانا کا سخت ری ایکشن آئے گا اور وہ ضرور جوابی وار کریں گے وہ بول سکتے ہیں کہ رنگے ہاتھ تو آپ کے لوگ پکڑے گئے ہیں جبکہ الزام آپ دوسروں پر لگاتے ہیں تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے زاہد درانی نے برملا اعتراف کیا کہ تحریک انصاف کے امیدوار منظور آفریدی سے 50 کروڑ روپے وصول کئے گئے سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں چلی گئی کس کی جیبوں میں گئی پرویز خٹک اکیلے کھا گئے یا دوسروں کو حصہ بھی دیا کیونکہ بات 50 کروڑ کی نہیں بلکہ اربوں روپے کی ہے پشتونخواء میں اربوں روپے کا کھیل کھیلا گیا ایسا تو غریب صوبہ بلوچستان میں بھی نہیں ہوا سب سے شفاف صوبے میں سب سے زیادہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا جہاں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔
جناب عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس ویڈیو پہلے ہوتی تو وہ سپریم کورٹ چلے جاتے کسی نے پوچھا نہیں کہ جناب کس کے خلاف جاتے یہ کام تو آپ کے وزیر اعلیٰ اور پارٹی اراکین نے کیا تھا آپ اتنے سادہ ہیں کہ آپ کو اپنے صوبہ اس کے وزیراعلیٰ اور پارٹی اراکین کی سرگرمیوں کا علم ڈھائی سال بعد ہوا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان اپنے رویہ ناقص طرز عمل اور رعونت کی وجہ سے ایک گورکھ دھندے میں پھنستے جارہے ہیں انہوں نے ڈھائی سال تک عوامی مسائل اور مشکلات پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ صرف احتساب احتساب کا راگ الاپتے رہے نہیں چھوڑوں گا پکڑوں گا این آر او نہیں دوں گا کا گردان کررہے ہیں ایسی کڑوی کسیلی باتوں سے ملکی اور عوامی مسائل حل ہونے سے رہے تحریک انصاف نے تو سرکاری ملازمین کی تحریک کے پیچھے اپوزیشن کا ہاتھ بتایا ہے وزیر اطلاعات شبلیکوہاٹی نیکہا کہ اپوزیشن ہر موقع کو حکومت کے خلاف استعمال کررہی ہے وزیراعظم کا اپنا حال یہ ہے کہ ان کے پٹارے میں الزامات کے سوا اور کچھ نہیں ہے مثال کے طور پر بلوچستان میں تحریک انصاف اور باپ پارٹی کی مخلوط حکومت ہے لیکن عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں سینیٹ کی ایک نشست کی بولی 50 سے 70 کروڑ لگائی جارہی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ وہاں تو آپ کی حکومت ہے وہاں پر ہونے والی خریدوفروخت کا ذمہ دار کون ہے؟صرف مولانا پر الزام لگانا کہ انہوں نے سینیٹ کے ہر الیکشن میں مال بنایا ہے اور اپنے ارکان کو این آر او دینا کہاں کا انصاف ہے اگر انہوں نے کارروائی کرنی ہے تو پرویز خٹک کے خلاف کریں جن کے خلاف پارٹی کے اپنے متعدد اراکین نے گواہی دی ہے کہ پرویز خٹک نے ان سے پیسے لئے اور کئی ووٹ خریدے۔
بہرحال صورتحال دلچسپ ہوتی جارہی ہے سیاسی پہلوان ہر طرح کا داؤ پیج استعمال کررہے ہیں سینیٹ کا میدان سج رہا ہے منڈی لگ رہی ہے گھوڑے لائے جارہے ہیں بیچنے والے دام بتارہے ہیں خریدار بولی لگا رہے ہیں گھوڑے بکنے کے واسطے تیار ہیں اوپر سے تحریک انصاف کے اراکین کو فی کس 50 کروڑ روپے فنڈ ملنے کی جو توقع تھی وہ بھی معدوم ہورہی ہے اتنا بڑا نقصان اپنے آپ کو بیچے بغیر پورا نہیں ہوسکتالیکن یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ وزیراعظم کی ضد کی وجہ سے کہیں سینیٹ انتخابات مؤخر نہ ہوجائیں اگر ایسا ہوا تو اس کا نقصان حکومت کو ہوگا اسے قانون سازی میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا وہ”نہ جائے ماندن و نہ پائے رفتن“ والی صورتحال سے دو چار ہوجائے گی اگر حکومت خفیہ رائے شماری ختم کروانے میں کامیاب ہوگئی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے بدمست گھوڑے قابو میں رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں