عبدالقادر کا بلوچستان

تحریر: علی رضا رند
اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں مسند اقتدار پر براجمان جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت نے بلوچستان سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی رکنیت کے لیے عبدالقادر کو نامزد کیا ہے. ہم میں سے اکثر لوگوں نے موصوف کا نام پہلی بار سنا اور میڈیا کی توسط سے اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق موصوف اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں. ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر محترم نے کل بتایا کہ موصوف پہلے بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں تھے تاہم ایک روز قبل وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرگئے جس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا. اب یہ معلوم نہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں اکثریتی جماعت کو چھوڑ کر عبدالقادر صاحب کیونکر تحریک انصاف میں وارد ہوئے اور کن خصوصیات کی بنیاد پر انھیں شمولیت کے اگلے ہی روز پی ٹی آئی کی جانب سے سینیٹ کا ٹکٹ بھی مل گیا.

سینیٹ انتخابات میں بلوچستان ہمیشہ سے سیاسی خرید و فروخت کی منڈی رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غیر شفاف عام انتخابات ہیں. 2018 میں ن لیگی وزیر اعلی نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کے پس منظر میں راتوں رات بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی پہلے سینیٹ اور پھر صوبائی حکومت میں شمولیت ہوئی. مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت سینیٹ چیئرمین منتخب ہونے کے بعد چاغی کے دورے پر آئے صادق سنجرانی سے جب ان کی جماعتی وابستگی پر میں نے سوال پوچھا تو انہوں نے خود سمیت باپ کے دیگر سینیٹرز کو آزاد گردانا. ممکنہ عدم اعتماد کے متعلق میرے سوال پر انہوں نے ایسے کسی امکان کو رد کیا تھا لیکن بعد کے حالات نے اس امکان کو ظاہر کردیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے علم میں ہے.

تحریک انصاف نے باقی صوبوں میں سینیٹ کی نشست کے لیے جماعت کے سینیئر اور دیرینہ رہنماؤں کو ترجیح دی لیکن ماضی کی طرح دیگر حوالوں سے نظر انداز بلوچستان میں ایک غیر معروف نام کو مسلط کرکے نہ صرف صوبے کی عوام بلکہ حکمران جماعت کی مقامی قیادت کو بھی مایوسی اور تشویش میں مبتلا کردیا. مرکز میں حکومت اور صوبے میں اتحادی ہونے کے باوجود بلوچستان میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مایوسی دیدنی ہے. پارٹی کے جو لوگ عمران خان کے قریب ہیں انھیں اپنی جماعت کے سیاسی مستقبل کی بجائے اپنے مستقبل کی فکر لگی رہتی ہے جس کی وجہ سے کئی سینئر رہنماء مایوسی کے عالم میں پارٹی چھوڑ گئے. جو باقی رہ گئے تھے انھیں عبدالقادر کے انتخاب نے اس قدر رنجیدہ کردیا کہ بابر یوسفزئی جیسے فعال اور دیرینہ کارکن بھی وفاقی جماعتوں سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں.

ایک وہ بلوچستان ہے جس کے لاکھوں ووٹرز نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو اس امید پر کامیابی دلائی کہ وہ ان کے بنیادی مسائل حل کریں گے. دوسری جانب وہ بلوچستان ہے جو ہمیشہ اسلام آباد یا راولپنڈی کے رحم و کرم پر رہا. اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق نے صوبے کے عوام کی منتخب نمائندوں حتیٰ کہ تحریک انصاف کی پارلیمانی جماعت کو بھی اعتماد میں لیے بغیر عبدالقادر کا انتخاب کرکے یہ ثابت کردیا کہ بلوچستان کو ہماری مقتدرہ اب بھی اس ملک کا باقاعدہ حصہ یا صوبہ ماننے کی بجائے اپنی کالونی سمجھتی ہے. ایوان بالا میں عبدالقادر جیسے غیر سیاسی، غیر مقامی اور کاروباری ذہنیت کے حامل شخص کو بلوچستان کا نمائندہ بناکر بھیجنا اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ حکمران اشرافیہ اس صوبے اور اس کی عوام سے کس قدر مخلص ہے. اب ظاہر ہے ایک ٹھیکیدار جب پیسے کی بل بوتے پر یہاں سے منتخب ہوکر ایوان بالا کا رکن بنے گا تو اسے صوبے کے حقوق کی بجائے اپنے مفادات کی دفاع کا فکر لاحق ہوگا اور وہ ہر اس فیصلے کی تائید کرے گا جو بلوچستان کی مفاد کے خلاف اور ان کے ذاتی مفاد کی حق میں ہوگا. سینیٹ میں جب ایسے لوگوں کی بھرمار ہوگی تو لوگ ہمارے وطن کو عبدالقادر کا بلوچستان تصور کریں گے اور اس صوبے کی عوام کا استحصال یونہی ہوتا رہے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں