آواران عجب کرپشن کی غضب کہانی

تحریر: نصیر عبداللہ
آواران جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ یہ بلوچستان کے جنوب میں واقع ہے، آواران تربت، گوادر، لسبیلہ، پنجگور اور خضدار کے باڈر سے منسلک ہے۔ بلوچستان میں ایرانی تیل اسمگلنگ کا دوسرا سب سے بڑا راستہ تربت براستہ ہوشاپ آواران ٹو لسبیلہ ہے۔ لسبیلہ سے یہ تیل حب، کراچی اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں سپلائی کی جاتی ہے۔ ایک غیر مصدقہ رپورٹ کے مطابق (زمیاد) ایرانی تیل کے کاروبار میں استعمال ہونے والی گاڑیاں اور (بیک) ٹرک گاڑیاں جو ڈیزل سپلائی کے لیے مخصوص طریقے سے ڈیزائن کی کی گئی ہیں، کے اس روٹ سے گزرجانے سے ایک ہفتے میں آواران میں 50 لاکھ رقم ضلع میں آجاتی ہے۔ لیکن یہاں استعمال نہیں ہوپاتی ہیں چونکہ رقم کا بیشتر حصہ چیک پوسٹوں میں بھتے کی مد میں لی جاتی ہے۔ یہ بلیک منی باہر لیجاکر وائٹ کردیا جاتا ہے۔ اگر اس رقم کا آدھا حصہ بھی آواران پر اور یہاں کے لوگوں پر خرچ کیا جاتا تو یہاں کے لوگوں کی حالت قدرِ بہتر ہوتا ۔2024 کی مردم شماری کے مطابق آواران کی ٹوٹل آبادی 121,821 پرمشتمل ہے۔ ان میں 87,584 دیہی آبادی پر مشتمل ہے جبکہ 34,237 کی شہری آبادی ہے۔ شرح تعلیم %63 فیصد ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آواران کے ریکارڈ کے مطابق آواران 343 اسکول بند ہیں، اور 431 اساتذہ کی پوسٹیں خالی ہیں جن میں (275 JVT) (MQ3) (69 JET) (13JAT) (31DM) (15PET) اور 25 EST کی پوسٹیں خالی ہیں۔ آواران کے دور دراز کے علاقوں میں تقریباً 15 سے زیادہ ایسے چھوٹے بڑے علاقے ہیں جہاں پرائمری اسکولز کی ضرورت موجود ہے۔ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچیوں کو تعلیم نہیں دے پاتی ہیں۔ ان علاقوں میں مالار، بزداد، تیرتیج کے مزارآباد، نوندڑہ سورک اور نوندڑہ شمبو گوٹھ شامل ہیں۔ آواران بلوچستان کا واحد ضلع ہے جہاں غیرحاضر ٹیچرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہم نے مختلف اظلاع کے ڈیٹا کا موازنہ کیا لیکن کسی بھی ڈسٹرکٹ میں بہ یک وقت اتنے غیرحاضر ٹیچرز کی تعداد دیکھنے کو نہیں ملی۔ آواران میں غیرحاضر ٹیچرز کی پشت پناہی کرنے والا اور کوئی نہیں بلکہ دو بار وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو ہے۔ غیرحاضر ٹیچرز کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والی تنظیم بی ایس او پچار آواران زون آواران میں ٹیچرز کی غیرحاضری کا زمہ دار عبدالقدوس بزنجو اور آواران میں فعال ان کی پارٹی بزنجو کاروان کو قرار دیتی ہے، بی ایس او پچار کے مطابق انہوں نے سال 2023 میں تمام غیرحاضر ٹیچرز کا لسٹ نکال لیا تھا جن میں اکثریت غیرحاضر اساتذہ کا تعلق بزنجو کاروان سے ہے”۔ کوئی چار ماہ قبل میں نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس آواران سے ضلع میں بند اسکولز کا ڈیٹا حاصل کیا جس میں ضلع بھر میں بند اسکولوں کی تعداد 342 تھی۔ حالی میں اسمبلی میں ایجوکیشن پر اجلاس ہوا جس کے بعداد بلوچستان تمام اظلاع کے بند اسکولوں کی سرکاری تعداد میڈیا میں شیئر کردی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق آواران میں اسکول کی بندش کے ڈیٹا میں اچانک ایک حیران کن حد تک کمی دیکھنے کو آئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ضلع آواران میں ٹوٹل 161 اسکول بند ہیں۔ اس چار ماہ میں گراونڈ میں زیرہ فیصد کام ہونے کے باوجود یہ کاغذی تبدیلی و بہتری کیسے آئی ہے؟ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آواران نے کیوں حکومت کو صحیح اور تصدیق شدہ ڈیٹا فراہم نہیں کیا ہے؟ کیا یہ اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کی کوشش نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کا نقصان ضلع کو ہوگا۔آواران اپ لفٹنگ پروجیکٹ آواران کی تازین و آرائش کے لیے 8 ارب کا پروجیکٹ ہے۔ پروجیکٹ کو دوسال ہوئے فعال ہے لیکن آواران میں اِن دوسالوں میں ایک پروجیکٹ پر نہ کام ہوسکا ہے اور نہ ہی کسی پروجیکٹ کا آغاز ہوا ہے۔ ہم نے جب پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر کاشف امر بلوچ سے پوچھا کہ آج تک اپ لفٹنگ پروجیکٹ کی طرف سے کام کا آغاز کیوں نہیں ہوا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی تعاون درکار ہے انتظامیہ تعاون کرے تو ہم جلد کام کا آغاز کریں گے۔ میں نے اس پر دوبارہ سوال کیا کہ آپ کو انتظامیہ کی کس نوعیت کی تعاون چاہئے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ آواران مین بازار کو کشیدہ کرنے کے لیے کلیئرنس کرنے کے لیے ہمیں انتظامیہ کی تعاون درکار ہے۔”میں نے ضلعی انتظامیہ سے اسسٹنٹ کمشنر آواران مجیب الرحمن سے اس حوالے سے انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ ہر طرح کی تعاون کے لیے تیار ہے وہ کام تو شروع کریں۔ میں نے اسسٹنٹ کمشنر سے مزید پوچھا کہ جب سے آپ اسسٹنٹ کمشنر آواران ہیں کیا وہ آپ کے یا ڈی سی کے پاس کسی بھی طرح کے تعاون کے لیے آئیں ہیں یا اپ لفٹنگ پروجیکٹ کی طرف سے تعاون کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو کوئی لیٹر دیا ہو۔” انہوں نے بتایا کہ نہیں آج پہلی بار آپ سے تعاون کے الفاظ سن رہے ہیں آج سے پہلے ہمیں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی طرف سے تعاون کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ "پروجیکٹ ڈائریکٹر سے پوچھا کہ اب تک کتنے ٹینڈز ہوچکے ہیں انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کوئی ٹینڈر نہیں ہوا ہے۔”جبکہ اخبار میں ٹینڈرز کی اشاعت ہوئی ہے جس میں بیڈینگ کی آخری تاریخ 23 جولائی 2024 درج ہے۔ البتہ ان کے ایک ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مین بازار کی کشیدگی، لباچ روڑ کی کشیدگی بازار میں مارکیٹ کی تعمیر اور مشکے کور سے مین ماشی بائی پاس پروجیکٹ ٹینڈرز ہوئے ہیں۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر سے بات کرتے ہوئے یہ تاثر ملا کہ وہ خود پروجیکٹ کے بارے میں کچھ خاص جان کاری نہیں رکھتے۔آواران اب لفٹنگ پروجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہی کرپشن کی نظر ہوگئی دو سال میں ملازمین اِن دوسالوں میں 9’837’476’875’800تنخواہوں کی مد میں کھاگئی ہیں لیکن گراونڈ پر ان کا کام صفر ہے۔ اپ لفٹنگ پروجیکٹ میں آواران کے لوگوں کی حق تلفی کرکے ضلع سے باہر مریوں اور بگٹیوں کو ملازمت پر رکھا گیا ہے۔ آواران اب لفٹنگ پروجیکٹ کا آواران میں آفس موجود نہیں، آواران میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ یہ بڑی لیول کا پروجیکٹ ہے اس کا آفس دارلحکومت کوئٹہ میں ہی ہوتا ہے اور ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے اب لفٹنگ پروحیکٹ کے ایک ملازم سے آفس کی ایڈریس مانگی اور وزٹ کرنا چاہا جب بتائے ہوئے جگہ پر یعنی بلوچستان بورڈ کے قریب پہنچا اور کال کرکے آفس کی ایکذیٹ لوکیشن مانگا تو کہنے لگا میں نے ابھی رابطہ کیا ہے وہاں ہمارے بندوں کو کرایہ دار نے نکال دیا ہے اس لیے آفس بند ہے، اور واقعی میں نے دیکھا کہ آفس کو تالا لگا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا رینٹ پر کوئی دوسری آفس ڈھونڈ رہے ہیں مل جاتا ہے تو پھر آپ وزٹ کرسکتے ہیں۔ میں نے قریب کے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ آفس تو کچھ مہینوں سے بند ہے۔ یعنی آواران اب لفٹنگ کا کوئٹہ میں بھی کوئی آفس نہیں ہے۔ 2015 / 2016 کو نواب ثناءاللہ زہری نے ہر ضلع کے لیے بیس کروڑ کا اعلان کیا یہ رقم میونسپل کمیٹی آواران کو مل بھی گئی۔ یہ ٹاون کی تزئین و آرائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ آواران میں یہ رقم خروبرد کردی گئی جس کا واضح ثبوت گراونڈ میں حقیقی صورت میں موجود ہے۔ اس وقت تین کروڑ کی کثیر رقم ماشی، نیابت ، بازار اور کہن زیلگ کے سیوریج لائن کے لیے رکھی گئی تھی۔ بزنجو کاروان کے خاص و ناس عبدالقدوس بزنجو کے چہیتے میرساجد کو یہ ٹھیکہ دیا گیا۔ کہن زیلگ کو بائی باس کرکے باقی ٹاون میں سیوریج لائن بنائی گئی جو بناتے ہی بری طرح فیل ہوگئی، الٹا لوگوں کے لیے مصیبت بن گئی کیونکہ اب مین ہول میں پانی جمع ہوکر دوبارہ لوگوں کے گھروں میں جانے لگاتھا۔ سیوریج لائن کی تنصبی سے سب سے زیادہ ماشی متاثر ہوا وہاں کی سڑکیں چلنے کے قابل نہیں رہے۔ ایم پی اے فنڈز 2025/2026 میں آواران کے نومنتخب ایم پی اے خیرجان بلوچ نے انہی علاقوں یعنی نیابت، مین بازار، ماشی اور کہن زیلگ کے سیوریج لائن کے لیے چار کروڑ کی رقم مختص کی ہے۔ میونسپل کمیٹی آواران کو بھی چار کروڑ ٹاوں سیوریج لائن کی تعمیرات کے لیے ملی ہیں یعنی نیابت، مین بازار، ماشی اور کہن زیلگ، اب لفٹنگ پروجیکٹ میں بھی ایک کثیر رقم ٹاون سیوریج لائن کے لیے مختص کئے گئے ہیں یعنی نیابت، ماشی، مین بازار اور کہن زیلگ۔ حیرانگی کی بات ہے کہ یہ سیوریج لائن کا کام ان میں سے کس پروجیکٹ میں کئے جائیں گے اور کون یہ کام کرے گا کون کئے گئے کام کا کی تصویریں نکال کرکے اوکے کردےگا فی الحال تو سب نے ایک دوسرے کی طرف نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ کرپشن کرنے کا یہ طریقہ انوکھا نہیں ہے۔ حالی میں ڈان نیوز کے معروف صحافی اکبر نوتیزئی نے بلیدہ ٹو تربت روڑ پر ڈان میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع کیا تھا جس میں ٹھیک اسی نوعیت کی کرپشن ہوئی ہے یعنی 1993 میں بلیدہ ٹو تربت روڑ کے نام سے فنڈز ملتے رہے ہیں جبکہ یہ 24 کلومیٹر تک کا روڑ آج تک مکمل نہیں ہوپایا ہے۔ اسی طرح 2015 سے آواران سیوریج لائن کے فنڈز ملتے رہے ہیں اب تک مکمل سیوریج لائن کا کام ناکامی کا شکار ہے اور مزید تواتر سے سیوریج لائن کے نام پر فنڈز موصول ہورہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں