اخترمینگل کا پارلیمنٹ کو سلام آخر

تحریر : انور ساجدی
سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے۔اپنے تحریری استعفے میں انہوں نے اسپیکر کو وجوہات سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔بلوچستان کے حوالے سے یہ ایک بڑی خبر ہے جیسے کہ آتش فشاں کا پھٹ جانا لیکن اتنی بڑی اسمبلی میں شاید اس کی اتنی اہمیت محسوس نہ کی جا سکے کیونکہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ماحول مختلف ہے۔وہاں پر ایک خصوص مائنڈ سیٹ موجود ہے جو تمام معاملات کو مختلف نظریہ اور زاویہ سے دیکھتا ہے۔ حالانکہ اختر مینگل ایک فرد واحد کا نام نہیں ہے بلکہ بلوچستان کا نام ہے وہ ہوں ڈاکٹر مالک ہوں یا محمود خان باربار دھتکارے جانے کے باوجود وہ فیڈریشن کے نام لیوا ہیں آئین کو ماننے والے ہیں اور آئین کے اندر اپنے حقوق کے طالب ہیں۔ان کے بعد کوئی پاکستان کی پارلیمنٹ میں جا کر حقوق کی دہائی نہیں دے گا اگرچہ پارلیمنٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو درجن دیگر اراکین بھی ہیں لیکن وہ بولتے نہیں کچھ کرتے نہیں ان کے وجود کے اندر جنبش نہیں وہ کوئی رائے نہیں رکھتے بس ان کے نام کی لاٹری نکلی ہے اور وہ بڑی فرماں برداری کے ساتھ اپنی نشستوںپر براجمان ہیں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اسپیکر یوں آسانی کے ساتھ اختر مینگل کا استعفیٰ منظور نہیں کریں گے اس دوران پورا زور لگایا جائے گا کہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں لیکن اختر جان نے کہا ہے کہ ان کا فیصلہ پکا ہے جب اسمبلی میں ان کی بات نہ سنی جائے اور وہ اتنے مجبور ہوں کہ ادھر ان کی بچیوں پر لاٹھی چارج ہو جائے اور وہ کچھ کرنے کے قابل نہ ہوں تو یہاں رہنا بے کار ہے۔انہوں نے اس پیشمانی کا اظہار بھی کیا کہ بزرگوں نے اسمبلی جانے سے منع کر دیا تھا لیکن ہم نے بزرگوں کی بات نہیں مانی انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ واپس اپنے گھر جائیں گے وہاں پر کاشت کاری کریں گے بشرطیکہ اس کی اجازت دی جائے۔غالباً ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تین ہزار افراد کو مشکوک اور غدار قرار دے کر ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے اس بات کا انکشاف نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حالیہ اجلاس کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ آپ تین ہزار پڑھے لکھے لوگوں کو بی ایل اے کے حوالے کر رہے ہیں۔یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے ۔یقینی بات ہے کہ حکمرانوں پر ڈاکٹر صاحب کی تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل کر گزریں گے۔ اس طرح اختر مینگل کے استعفیٰ کو بھی تشویش کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا ان کے نزدیک ان کا متبادل بھی موجود ہے ۔وہ اختر کو صرف ایک رکن سمجھتے ہیں اور بلوچستان کے مجموعی تناظر میں ان کی سیاسی اہمیت اور وزن سے آگاہ نہیں ہیں۔پاکستان کی گزشتہ اور موجودہ قومی اسمبلی میں اختر مینگل نے بے شمار مرتبہ بڑی پرسوز باتیں کی ہیں لیکن کسی دور میں میں ان کی بات نہیں سنی گئی۔انہوں نے2006 میں نواب بگٹی کی شہادت کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا لیکن حکمرانوںپر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔اختر مینگل نے خود تسلیم کیا تھا کہ ایک مرتبہ اسمبلیوں کو چھوڑنے کے بعد دوبارہ آنا غلطی تھی لیکن یہ غلطی نہیں ایک موقع تھا جو انہوں نے حکمرانوں کو دیا لیکن انہوں نے ماضی کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اس لئے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کا اسمبلیوں ،صدر، وزیراعظم اور ریاست پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔چند روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے جو نوجوان قیادت ہے وہ حکمرانوں اور مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا اشارہ حالیہ پرامن اپ رائزنگ کی طرف تھا جب خواتین کی قیادت میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔حکمرانوں نے گوادر میں ماہ رنگ بلوچ سے مذاکرات اور سمجھوتہ کیا لیکن کوئٹہ اور اسلام آباد میں انہیں دہشت گردوں کی آلہ کار اور دشمنوں کی سہولت کار قراردے دیا۔
ایک صحافی نے اختر مینگل سے پوچھا کہ اگر حکمران یقین دہانی کروائیں تو واپسی کا کوئی راستہ ہے انہوں نے کہا کہ سب سے مقدس گارنٹی قرآن ہے ہمارے بزرگوں کو قرآن کی گارنٹی دی گئی اور پھر اسے توڑ دیا گیا۔اس سے بڑی گارنٹی اور کیا ہوسکتی ہے۔اختر مینگل کی پریس کانفرنس میں محمود خان اچکزئی بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا واحد مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں حق حاکمیت دیا جائے۔فوج سمیت تمام ا داروں میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے شاباش ہے محمود خان کی ہمت پر۔ان کے والد 18برس تک جیلوں میں رہے کسی نے ان کی بات نہ سنی۔محمود خان تو چند ماہ جیل میں رہے ہیں ان کو پھربھی توقع ہے کہ ان کی بات سنی جائے گی۔عین ممکن ہے کہ اختر مینگل کو میاں صاحب کی طرف سے منانے کی کوشش کی جائے لیکن وقت بدل چکا ہے میاں صاحب کی وہ پرانی بات نہیں رہی۔کیونکہ مملکتی اور حکومتی امور ان کے کنٹرول میں نہیں رہے۔بظاہر ن لیگ کی حکومت ہے لیکن کنٹرول ان کے پاس نہیں ہے۔ میاں صاحب کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا ہے۔ان کی صاحبزادی کو پنجاب دے کر زبان بندی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
موجودہ صورت حال سے میاں صاحب خود بھی مطمئن نہیں ہیں ایک تو وہ الیکشن ہارے ہوئے ہیں اوپر سے ہائبرڈ قسم کا نظام مسلط کر دیا گیا ہے۔اس لئے وہ لندن جا رہے ہیں تاکہ باقی وقت سکون سے گزار سکیں امکانی طور پر جو بھی حکمران ہیں وہ اختر مینگل کے استعفے کی پرواہ نہیں کریں گے ان کے خیال میں بلوچستان کی نمائندگی بھرپور ہے ملک شاہ نوابزادہ جمال خان رئیسانی میاں خان مسوری اسمبلی میں موجود ہیں اسی طرح صوبائی معاملات اسی طرح کے نوجوان چلائیں گے۔ڈرامہ کے استاد گوادری موجود ہیں تفریح طبع کے لئے اور کیا چاہیے۔ یہ جو اختر مینگل نے اسمبلی سے استعفیٰ دیا ہے معلوم نہیں کہ وہ اس کے ساتھ پارلیمانی سیاست کو بھی خیر باد کہہ رہے ہیں یا ان کی جماعت اس کا حصہ رہے گی بظاہر اختر مینگل نے پارلیمنٹ اور ریاست کو خداحافظ کہہ دیا ہے اس کے باوجود ان کے اپنے بقول انہیں آسانی سے زندگی گزارنے نہیں دیا جائے گا یہ جو فورتھ شیڈول کی فہرست ہے یہ طویل ہوتی جائے گی اور آخر میں بہت کم لوگ ایسے رہ جائیں گے جو حقیقی حب الوطنی کی تعریف پر پورا اتر سکیں۔ پاکستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جنرل ایوب خان نے ایبڈو کے تحت اپنے تمام مخالفین کو ملک دشمن قرار دے کر ان کی سیاست پر پابندی عائد کر دی تھی انہوں نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھی ملک دشمن قرار دیا تھا۔1971ءمیں عوامی لیگ پر پابندی لگا کر اس کے تمام اراکین اسمبلی کو غدارکے لقب سے نوازا گیا تھا یحییٰ خان نے عوامی لیگ کی نشستیں اس طرح دیگر جماعتوں میں تقسیم کی تھیں جس طرح موجودہ دور میں تحریک انصاف کی نشستوں کو ن لیگ پیپلز پارٹی اور جمعیت علماءاسلام کو بخش دی گئی ہیں۔
جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو ملک دشمن اور کافر قرار دے کر پھانسی کے بعد ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔جنرل پرویز مشرف نے نواب بگٹی کو قتل کر کے ان کی لاش غائب کر دی تھی اور سخت پہرے میں ایک خالی تابوت کی تدفین کی تھی جس پر آج تک پہرہ ہے۔اگر اختر جان پارلیمانی سیاست سے ہمیشہ کے لئے الگ ہوئے تو ریاست اپنا ایک اور نام لیوا کھو دے گی۔اسی طرح بالآخر ڈاکٹر مالک کو بھی اسی راستے پر چلنا پڑے گا۔عمر کے اس آخری حصے میں ان کے لئے آبرومندانہ راستہ یہی ہوگا کہ نوجوانوں اور بچوں کے ساتھ مل جائیں اور پرامن جدوجہد میں ان کی رہنمائی کریں۔جہاں تک یہ کہنا کہ بیٹیوں کے آنچل کھینچے گئے تو قومی جدوجہد میں ایسا ہوتا ہے۔کھینچے گئے آنچل کو پرچم بنا لیا گیا لیکن حکمرانوں کا یہ عمل کبھی فراموش نہ ہوسکے گا۔بلوچستان کی صورتحال بہت ہی پیچیدہ اور مخدوش ہونے جارہی ہے اصل ذمہ داری حکمرانوں پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے خلاف دشمنوں کا سا سلوک کریں گے یا کچھ ۔حب کی زمینوں کی سٹلمنٹ نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے اور یہ بدگمانی پائی جاتی ہے کہ نئے اندراج میں انصاف نہیں ہوگا بلکہ شدید بندربانٹ کا خدشہ ہے۔حب ضلع کی زمینیں اس وقت تذویراتی اور کمرشل طور پر بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔بے شمار مقامات پر ان زمینوں پر وار لارڈ اور بدمعاشوں کا قبضہ ہے حالانکہ یہ ساری بندوبستی اراضی ہے لیکن لاقانونیت اور حکومتی کمزوری کی وجہ سے ان پر غیر قانونی قابضین کا راج ہے جن زمینوں کا بندوبست نہیں ہوا ہے وہ بھی لاکھوں ایکڑ ہیں کافی ساری زمین پہلے سے سرکار کے قبضہ میں ہے۔لوگوں کو خدشہ ہے کہ نئے بندوبست کا ضرور کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا اور ا سکے ذریعے مقامی آبادی کو اکثر زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے گا تاکہ ان زمینوں کو سرکاری اور بین الاقوامی استعمال میں لایا جا سکے۔بظاہر اس کا مقصد نئے صنعتی زونز کا قیام ہے حالانکہ حب وندر اور اوتھل میں پہلے سے صنعتی زون قائم ہیں گڈانی میں ایک ماربل سٹی بھی ہے لیکن یہ سارے کے سارے منصوبے شدید ناکامی سے دوچار ہیں۔گڈانی کا پورا ساحل غلط منصوبوں کی نذر ہوگیا ہے جبکہ ڈی جی خان سیمنٹ کو ہزاروں ایکڑ زمین بلاوجہ الاٹ کی گئی ہے۔برسوں پہلے اٹک سیمنٹ کو پلاٹ اور زمین الاٹ کئے گئے تھے ان منصوبوں سے آج تک مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تو جو نئے صنعتی زون بنائے جائیں گے ان سے بہتری کی کیا توقع ہوگی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلے پرانے صنعتی علاقوں کی حالت درست کرے اس کے بعد ہی نئے زون قائم کرے۔مجھے خدشہ ہے کہ نئے بندوبست کے ذریعے زمینوں کا بڑا اسکینڈل جنم لے گا جو مقامی لوگوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں