شہید نواب اکبر خان بگٹی
تحریر:امان اللہ کنرانی
نواب شہباز اکبر خان بگٹی شہید 12 جولائی 1927 کو منگل کے روز کھیتران والدہ کی بطن سے نواب محراب خان بگٹی مرحوم کی آنگن میں ولادت ہوئی زندگی کی ولادت کے ابتداءدن بارکھان میں اپنی والدہ کے ساتھ بعد ازاں ڈیرہ بگٹی میں ایام طفل گزارنے کے بعد ان کو ایچی سن کالج لاھور میں داخل کیا گیا جہاں ان کے ہمراہ چیف آف بردھی قبائل میر سندر خان سندرانی مرحوم ،مزاری قبائل کے سردار و تمندار میر بلخ شیر مزاری مرحوم پہلے سے داخل تھے اور بعد میں نواب خیر بخش مری مرحوم و نواب محراب خان بگٹی مرحوم کے چھوٹے صاحبزادے میر احمدنواز بگٹی مرحوم بھی داخل ہوئے سب کی یادوں کے تذکرے نواب محمد اکبر خان شہید بڑی دلچسپ پیرائے میں کرتے تھے نواب خیر بخش مری مرحوم کو پکا نمازی حتی کہ دوسروں کو نماز کی طرف راغب کرنے و صبح سویرے اٹھانے میں ان کے کردار کا زکر کرتے تھے و میر سندر خان سندرانی مرحوم کو اپنے و دوست ساتھیوں کا ھمدرد اور بالخصوص سائیکل سواری میں معاونت و اس کی مرمت میں مدد کا سہارہ سمجھتے تھے جب 12 سال کی عمر میں 1940 میں ان کے والد نواب محراب خان بگٹی کا انتقال ھوا تو ان کو بگٹی قبیلے کا سردار مقرر و منتخب کیا گیا تاھم انکی کم عمری کے باعث ان کا ایک عزیز نگران سردار مقرر ھوا جبکہ نواب محمد اکبر خان بگٹی شہید کو اس وقت تاج برطانیہ کی حکومت نے کورٹ آف وارڈ میں رکھا انکی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام کیا وہ کراچی سندھ میں امداد علی امام قاضی مرحوم IIA Qazi و انکی اہلیہ ایلسہ قاضی مرحومہ کے گھر انکی زیر نگرانی قائم بورڈنگ ھاوس میں تعلیم و تربیت حاصل کی جہاں قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایام طالب علمی گزار چکے تھے بعد ازاں ان کو انڈیا کی تقسیم کے بعد پاکستان کے پہلے سول سروس اکیڈمی 1948 میں پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے لاھور میں افتتاح کیا اور اس میں نواب محمد اکبر خان بگٹی شہید بھی داخل کرائے گئے اس وقت ان کے ہمراہ بعد میں سٹیٹ بنک کے بننے والے گورنر وی اے جعفری بھی ان کے ھم کلاس تھے ایام جوانی میں سیر و سیاحت و شکار سے شغف کے علاوہ کتاب بینی یعنی مطالعہ کا بڑا شوق رکھتے تھے ان کو مرکزی مطالعہ کا محور تاریخ و جغرافیہ و فکشن رہتا تھا وہ شاعری سے زیادہ نثر کا مطالعہ کرتے تھے اخبارات و رسائل دنیا جہاں کی معلومات تک رساءان کے مشاغل کا حصہ ھوتا تھا سیاست و زمینداری جزوی زندگی کا حصہ تھا تاھم جوانی و عمر کے باقی حصے میں قیدوبند ایوب خان کے مارشلا و تکالیف و سزاوں کا سامنا کیا سزائے موت و کالی کوٹھڑی و قید تنھاءسے بھی آشنائی حاصل کی بالآخر قید سے رہاءو سیاست میں متحرک رہے شیخ مجیب الرحمن سے قربت و بلوچستان کی حد تک نیپ سے نسبت رہی تاریخ کے موڑ پر ایسا وقت بھی آیا جس پر وہ کوءتبصرہ کی بجائے اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ کر گئے ہیں ان کو اس بات کا ملال ضرور تھا ان کے دور گورنری 1972-73 میں کوہلو اور بعد ازاں کراچی میں سردار عطا اللہ مینگل مرحوم کے گھر پر چھاپے نے ان کو گورنر کے عہدے پر مزید براجمان نہ رہنے کا باعث بنا وہ اپنی گورنری کے ابتداء6 مہینے کے اندر استعفی دے چکے تھے مگر 3 ماہ تک اس کو التوا میں رکھا گیا تاھم 31 دسمبر 1973 کو وہ از خود کراچی سے بطور گورنر زیر زمین چلے گئے تاکہ مجھے ذوالفقار علی بھٹو و محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ مزید کام کیلئے مجبور نہ کرسکیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کوءصوبے کا گورنر 3 دن تک غائب رہا ھو وہ ذولفقار بھٹو سے ذاتی مراسم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی احترام کا رشتہ تھا تاھم پیپلز پارٹی کے کردار سے شاکی اور بعد میں آصف علی زرداری سے ناراض و محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے گلہ مند تھے انھوں نے سیاست کے گورنر عمران اللہ کے زریعے اندر ھمارے گھر کو نشانہ بنایا نواز شریف کے دور میں 2 جون 1992 کو اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے سلال اکبر بگٹی شہید کے قتل میں آءبی کی معاونت و انکی صوباءحکومت تاج جمالی کی انکے مخالفین کو سہولت کی فراھمی پر بھی دل گیر رہے نواب محمد اکبر خان بگٹی شہید کی زندگی پر تحفظات اپنی جگہ پر مگر موت انھوں نے اپنی مرضی کی حاصل کی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کے پیرائے میں رہ کر دنیا میں اعلی مقام جبکہ ملک و صوبے میں یکتا ممتاز رہے انھوں نے سیاست کے اندر شرافت و عزت و احترام کو فوقیت دی سیاست کو تجارت نہیں عبادت سمجھا اپنی جائیداد فروخت کرکے سیاست کی جائیداد بناکر سیاست کو پراگندہ نہیں کیا وہ بلوچستان کے ان تین سرداروں میں شامل تھے جنھوں نے اپنی زندگی میں اپنے یا بچوں کیلئے کوءگھر و سائبان نہیں بنایا انکے آباءگاں ھوں یا کوئیٹہ کہیں بھی پدری ملکیت کے بغیر کوءٹھکانہ نہ تھا انھوں اپنی پارٹی جمہوری وطن کے زرئیعے 1990 سے سیاسی جدوجہد کے اھداف طے کرکے ساحل و وسائل و بلوچ قومی تشخص کے تحفظ کو ترجیح دیتے ھوئے آئینی سیاسی حل کیلئے صوباءخود مختاری کا ایک مکمل دستاویز پورے ملک کی سیاسی قیادت سے مشورے و کانفرسوں و سیمیناروں میں آرا کی روشنی میں 2004-5 میں سینٹ کے اندر میرے زرئیعے پیش کروایا جس پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کی دو کمیٹیاں بنیں مگر اس کے نتائج حاصل نہ ھوسکے جس کی بنا پر انھوں نے مزاکرات کے ساتھ قومی سیاسی دبا بڑھایا اور چار جماعتی اتحاد کا احیا کیا جس میں نواب مری کا حق توار ،سردار عطااللہ مینگل کا بی این پی اور نیشنل پارٹی شامل تھے اس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر وہ ARD کا حصہ تھے جس میں تمام سیاسی جماعتیں ماسوائے مسلم لیگ ق و جماعت اسلامی و JUI (MMA)سب شامل تھے مگر سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے سوءیکم جنوری 2005 میں ایک خاتون لیڈی ڈاکٹر کے ریپ کے واقعے اور 5 جنوری 2005 کو کرفیو کے نفاذ و 8 جنوری 2005 کو سوءکو فوج کے حوالے کرنے اور سوءمیں چھانی کے قیام کے اعلان نے ڈیرہ بگٹی جو 4 گیس فیلڈز کا مسکن ہے میں آگ کی چنگاری کا کام کیا سوءمیں جنوری 2005 کو کرفیو کے بعد پورے ضلع ڈیربگٹی کا محاصرہ ھوا 17 مارچ 2005 کو نواب بگٹی شہید قلعہ و گھر پر راکٹوں کے بلااشتعال حملے 70 جانوں کا اتلاف و سکھ ٹمپل کا مسمار و ھندووں و عورتوں و بچوں کی ھلاکت نے نواب اکبر خان بگٹی شہید کی سیاسی زندگی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کو اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ نہ ھونے کے خدشات کے پیش نظر وہ 28 دسمبر 2005 کو گھر کی بجائے پہاڑ کو کھلات قلعہ سمجھ اسکو اپنا سائبان بنایا یکم جولاء2005 تک اپنے علاقے ڈیرہ بگٹی بعدازاں 2 دن کی پیدل و اونٹوں کے سفر کی مسافت پر کوہلو ایجنسی ترتانی کے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا جہاں انھوں نے ریاست سے بغاوت کی بجائے حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا جس کا مقصد ڈیرہ بگٹی کی گیس و کوہلو کے تیل و چاغی کی معدنیات و گوادر کے ساحل کی حفاظت اور اس کے اندر بلوچ قوم و بلوچستان صوبے کے حق کو تسلیم کرنے و بلوچ قوم کی شناخت کو مٹانے کے خلاف مزاحمتی آواز کو ایوانوں سے سنگلاخ چٹانوں تک پہنچاکر 26 اگست 2006 کو شہادت کا رتبہ حاصل کرکے بلوچستان و پاکستان میں پہلے واحد شہید کے درجے پر فائز ھوئے جو قومی حقوق کے تحفظ کیلئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرگئے تاریخ رقم کی دنیا میں کیوبا چہ گویرا کی یاد کو تازہ کردیا اس دوران ان کے ساتھ نواب مری مرحوم کے صاحبزادے بالاچ مری شہید بھی ھم رکاب و ھم سفر رہے اور بعد ازاں وہ بھی شہادت کی منزل تک پہنچ گئے ان کے ساتھ انکی صحبت میں پرورش پانے والے دور جوانی میں رحلت کرنے والے نوابزادہ ریحان اکبر بگٹی مرحوم کے بعد ان کے اکلوتے صاحبزادے اور نواب بگٹی شہید کے پوتے کو اپنے بچے کی طرح گود میں لے کر پالا بالخصوص جب ان کا اپنا چھوٹے صاحبزادہ سلال اکبر بگٹی جس کو بڑے طمطراق کے ساتھ تربیت دی تھی اور ان کو ایک مقام تک فائز بھی کردیا اس کی شہادت نے نواب بگٹی شہید کی زندگی کے لطف کو پر سوز کردیا تاھم انکی جدوجہد کو مزید تیز کرنے کا سبب بنا اور جلا بخشا انھوں نے بیٹے کی شہادت کے بعد 14 سالوں کی زندگی میں نئے کپڑے تک نہیں پہنے اور سوگ میں رہے اور اس کا روایتی آس روخ آج تک نہیں ھوا یعنی وہ یہ غم اپنی زندگی تک نہیں بھولے تاھم ان کے مرحوم بیٹے کا اکلوتا پوتا ان کا واحد سہارا بنا رہا ہر قدم پر ان کے ہمراہی رہے جس سے ان کا حوصلہ بند رہا معاشرتی و سیاسی و قبائلی اعتبار سے وہ ان کی تربیت پر خود معمور رہے سوچ و فکر اپنے آپ سے ھم آہنگ کرنے میں کامیاب رہے وہ اپنی زندگی ہی میں اپنی ذمہ داریاں انکے نازک کندھوں پر ڈالنے کی خواہش رکھتے تھے مگر خاندان میں یکے بعد دیگرے چھوٹے بھاءو بڑے بیٹے کی اموات کی غم نے ان کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع نہ دیا اگرچہ ان کے پوتے نے اپنی معصومانہ زندگی کی جوانی اپنے دادا کے سنگ گزار کر سختی کے ادوار کو انگیخت کیا اور جوانی کی لذت و لطافت سے قطع نظر اپنی جدوجہد پر توجہ مرکوز رکھ کر صوبے کے جوانوں کو پیغام دیا کہ حالات چاہے جیسے بھی اپنے بڑوں کی نقش قدم پر گامزن رہنے میں قوم کی بقا ہے چاہے نواب مری مرحوم و بالاچ شہید ھوں یا اس کے علاوہ قومی حقوق و شناخت کی تحفظ میں جاری جدوجہد کے راہی سب کا منزل ایک مشکلات یکساں ہیں 26 اگست 2006 کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کا جسد خاکی نہیں بلکہ پاکستان کا نظریہ ترتانی کے پہاڑوں میں دفن کیا گیا اور ڈیرہ بگٹی کے قبرستان میں نواب بگٹی شہید کا نہیں پاکستان کی بقا کی تابوت کو دفن کرنے کا جرم کیا گیا ان کرداروں کے خلاف مشرقی پاکستان کے ساتھ روئیوں کی روشنی میں ایک بار پھر اس عمل کو 2005-6 کے دوران ڈیرہ بگٹی و صوبہ کے طول و عرض میں جاری رکھنے پر قومی جرائم کا مرتکب قرار دینے و سزائیں تجویز کرنے اور آئندہ ایسے حالات پیدا نہ کرنے کا بلوچ و بلوچستان کو یقین دلایا جائے ورنہ قومی ھم آہنگی کو لاحق 26 اگست 2006 کا زخم کبھی نہیں بھرا جاسکے گا نہ ہی پاکستان و بلوچستان کے اندر امن و آشتی کا خواب شرمندہ تعبیر ھوسکے گا۔