بوستان، مارخور کا شکار کرنے والے 3 ملزمان گرفتار، قبضے سے شکار کیا گیا مارخور، اسلحہ اور گاڑی برآمد
کوئٹہ(یحییٰ ریکی)پشین میں مارخورکاشکارکرنے کے الزام میں پولیس اہلکارکوتین ساتھیوں سمیت گرفتارکرلیاگیا، وائلڈلائف ایکٹ کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کاآغازکردیاگیاہے۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ضلع پشین میں جمعرات کو مقامی افرادکی شکایت پرضلعی انتظامیہ حرکت میں آگئی، ڈپٹی کمشنرپشین زاہدخان کے مطابق بوستان کے صنعتی علاقے میں لیویزفورس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک جیپ کی تلاشی لی اوراس دوران شکارکئے گئے مارخوربرآمد کرکے تین ملزمان کوگرفتارکرلیا۔ گرفتارہونیوالوں میں سے دوسرکاری ملازم ہیں جن میں سے ایک شخص بلوچستان پولیس جبکہ دوسرامحکمہ واساکاافسرہے۔ ضلعی انتظامیہ پشین کے مطابق گرفتارملزمان کے خلاف وائلڈلائف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی کاآغازکیاگیاہے۔محکمہ وائلڈ لائف کے ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے شمالی پہاڑی سلسلے کوہ تکتومیں مارخورکاشکارکیاگیاتھا۔جرم ثابت ہونے پرگرفتارملزمان پر دس لاکھ یا اس سے زائد روپے جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق معدومیت کے خطرے سے دوچارمارخور بڑی تعدادمیں پاکستان میں پائی جاتی ہے جس میں اضافہ ہورہا ہے، جبکہ باقی دنیامیں مارخورکی تعدادمیں کمی آئی ہے۔گزشتہ دس برس سے پاکستان میں مارخور کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اب ساڑھے تین ہزار سے پانچ ہزارکے درمیان ہے۔ اس میں جانوروں کو تحفظ دینے کے لیے ملک کے فعال پروگراموں اور اس ضمن میں مقامی لوگوں کی شمولیت سے کیے جانے والے اقدامات کا اہم کردار ہے۔ تاہم دنیا بھر میں مارخور کی تعداد کم ہو رہی ہے اور اس وقت کرہ ارض پرچھ ہزارسے بھی کم بالغ مارخور موجود ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات کے حکام کے مطابق مارخور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ان میں افغان اور سلیمان نسل کے مارخوروں کی بڑی تعداد ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے تورغرکے علاوہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے قریب شمال مشرقی پہاڑی سلسلے کوہ تکتو میں بھی پائے جاتے ہیں۔محکمہ جنگلی حیات نے دنیا میں مارخورکی معدوم ہونیوالی نسل کوبچانے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں۔ حکام کے مطابق ان علاقوں میں مقامی آبادی مارخورکے تحفظ کے لئے انتظامی کے ساتھ تعاون کررہی ہے جس سے غیرقانونی شکاریوں کے خلاف کارروائی ممکن ہوئی ہے۔حکام کے مطابق اس وقت مارخور معدوم کی نسل خطرے سے دوچار ہے، اس لیے صرف قانونی شکار کی اجازت ہے جسے ٹرافی ہنٹنگ کہا جاتا ہے۔محکمہ جنگلی حیات کے حکام کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان میں ٹرافی ہنٹنگ کے حصے کے طور پر دو مارخوروں کے شکار کی اجازت دی گئی تھی۔ ان میں سے ایک کو تیس لاکھ اور دوسرے کو بیس لاکھ روپے میں شکار کیا گیا۔حکام کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 80 فیصد مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے۔مارخور ہائبرڈ کوئٹہ کے علاقے چلتن میں بھی پائے جاتے ہیں۔اس علاقے کی حفاظت کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔