تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے والا ”ماما“
تحریر: انور ساجدی
ماما قدیر کیا تھے؟ ایک تنہا غریب شخص، جن کی تحریک نے کوہ سلیمان سے لیکر بندرعباس تک ایک وسیع ادراک اور شعور کو جنم دیا، ماما قدیر نے وہ کام کیا جو آج تک بڑے سے بڑا سردار نواب اور سیاسی لیڈر نہیں کر سکا تھا، ماما نے قریہ قریہ نگر نگر گھوم کر مظالم کی نشاندہی کی، ان کا یہ احتجاج بندوق سے کم طاقتور نہیں تھا، جب نواب خیربخش مری کی وفات کے بعد ماما نے بلوچ بیٹیوں سے مل کر اپنے عظیم لیڈر کا جسد خاکی طاقتور حلقوں سے چھینا اور چلتن کے دامن میں آسودہ خاک کر دیا تو دنیا دیکھتی رہ گئی میڈیا کو سخت ہدایات تھیں کہ ماما کو کوریج نہ دی جائے ان کی خبریں شائع نہ کی جائیں، ایک طرف ماما اور اس کے پرعزم پیروکار ہیں دوسری جانب سارے میرجعفر اور میر قاسم جمع ہیں
ماما قدیر کیا تھے؟ اس بارے میں دو رائے ہیں ایک رائے بلوچ خلقت کی ہے دوسری مخالفین کی ہے بلوچوں کے نزدیک اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ایک تنہا شخص غریب شخص منحنی سی شخصیت کی مالک بہت ہی گہری رنگت کا حامل لیکن عزم جوانوں سے زیادہ مضبوط جدوجہد چٹانوں سے زیادہ سخت جلیل کی جوانمرگی نے ”ماما“ کو سارے بلوچ بچوں کا باپ بنا دیا۔انہوں نے جلیل کے چہرے پر سے سفید کفن سرکا کر اس کے ننھے سے معصوم سے بچے سے کہا کہ دیکھو تیرے باپ کو کس نے مارا ہے؟ اس نے اسی کفن سے لپٹ کر عہد کیا کہ وہ اپنی ساری زندگی ان بچوں کے لئے وقف کر دیں گے جو مسنگ ہیں اور جن کی مائیں رو رو کر ہلکان ہو گئی ہیں انہوں نے ایسی بے نظیر جدوجہد شروع کی کہ مظلوم اور محکوم قوموں میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ماما نے قریہ قریہ نگر نگر گھوم کر مظالم کی نشاندہی کی پرامن احتجاج کیا لیکن ان کا یہ احتجاج بندوق سے کم طاقتور نہیں تھا ”ماما“کی تحریک سے پہلے نوجوان تاریک راہوں میں مارے جاتے تے لیکن دنیا کو اس کا پتہ نہیں چلتا تھا لیکن ماما نے ایک ایک گھر سے گمشدہ نوجوانوں کی تصاویر حاصل کیں اور مختلف مقامات پر کیمپ بنا کر ان تصاویر کو سجایا تاکہ دنیا دیکھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے انہوں نے کوئٹہ میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی کیمپ لگایا وہ اسلام آباد تک پیدل مارچ کرتے رہے تاکہ حکمرانوں کا ضمیر جاگے اگرچہ وہ اس مردہ ضمیر کو جگانے میں کامیاب نہیں رہے لیکن بلوچوں کو21ویں صدی کے بے مثال مرحلے میں لے گئے۔ماما نے ایک آغاز کیا جس کا تسلسل جاری ہے اور شاید اگلی نسل تک بڑھے ان کی جدوجہد سے کوہ ہمالیہ سے لیکر کوہ الپس تک ساری دنیا کو آگاہی ہوئی کہ بلوچوں کے ساتھ کیا ظلم جبر اور بربریت ہوئی ہے جب وہ جنیوا میں خطاب کر رہے تھے تو بنیادی انسانی حقوق کے ادارے ہمہ تن گوش تھے اور اس باوقار شخص کو مستحسن نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ماما قدیر نے وہ کام کیا جو آج تک بڑے سے بڑا سردار نواب اور سیاسی لیڈر نہیں کر سکا تھا انسانوں کے ایک مظلوم گروہ کی آواز انہوں نے ساری دنیا تک پہنچائی انہوں نے خاموشی کی زنجیریں توڑ کر بربریت کو چیلنج کیا جس کے نتیجے میںوہ ہر گھر کا ماما بن گئے ان کی خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے جب نواب خیربخش مری کی وفات کے بعد ماما نے بلوچ بیٹیوں سے مل کر اپنے عظیم لیڈر کا جسد خاکی طاقتور حلقوں سے چھینا اور چلتن کے دامن میں آسودہ خاک کر دیا تو دنیا دیکھتی رہ گئی جب وہ طاقتور حلقوں کے جبڑوں سے نکال کر اپنے لیڈر کی میت لے جا رہے تھے تو نواب صاحب کے فرزند نے کہا تھا ماما تم ٹھیک نہیں کر رہے ہو میرے والد کی میت پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے اس پر ماما نے شیر کی مانند چیخ کر کہا تھا کہ یہ آپ کا نہیں پوری بلوچ قوم کا باپ ہے اس لئے میرا حق آپ سے زیادہ ہے۔ماما کی تحریک نے کوہ سلیمان سے لیکر بندرعباس تک ایک وسیع ادراک اور شعور کو جنم دیا یہ وہ عمل تھا کہ اس کے نتیجے میں تاریخ بدل گئی اس کے نئے ابواب لکھے گئے کہنہ نظام شکست سے دوچار ہوا اور قیادت نوجوانوں میں منتقل ہوگئی بلوچستان کے عام آدمی نے چرواہوں نے بزرگوں نے افتادگان خاک نے قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لی ایسا تاریخی عمل بلوچ سرزمین نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس سے پہلے لوگ منتشر تھے اور طالع آزما سیاسی نعروں اور شعبدہ بازیوں کا شکار تھے لیکن ماما نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا جو لوگ شروع میں ماما کی جدوجہد کا تمسخر اڑاتے تے عوام نے اس طبقہ کو حقارت اور تمسخر کا نشانہ بنایا اس نازک موڑ پر عوام نے اپنی قیادت خود سنبھال لی اور ایسی صورتحال نے جنم لیا کہ اسے قابو کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے بلوچستان نے طویل عرصہ میں کافی مدوجزر دیکھے ہیں بہت ہی نامساعد حالات کا مقابلہ کرتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنا تشخص نہیں مٹنے دیا۔2006 کے بعد جو اندوہناک واقعات ہوئے وہ ماضی کے واقعات سے زیادہ مختلف اور زیادہ گھمبیر تھے۔حاکمان وقت کا خیال تھا کہ نواب اکبر خان مشرقی بلوچستان کے ایک دور دراز علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کی شہادت کا دیگر علاقوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا لوگ اس صدمہ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کریں گے لیکن یہ ماما قدیر کا وجدان تھا کہ انہوں نے نواب صاحب کی شہادت کو ایک بڑی تحریک میں بدل دیا۔انہوں نے بلوچ عوام کو پہلی مرتبہ مشترکہ درد اور مشترکہ جدوجہد کی لڑی میں پرو دیا۔نواب صاحب کی شہادت کا ردعمل غیرمتوقع تھا کوئٹہ سے لیکر کراچی تک جب شدید احتجاج ہوا تو سب سے زیادہ سندھ حکومت پریشان ہوئی کیونکہ وہ ایسے احتجاج کے لئے تیار نہیں تھی وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اتنے سارے مظاہرین اچانک کہاں سے آ گئے۔نواب صاحب کو شہید کر کے حکمرانوں نے ایک جوا کھیلا تھا ان کی شہادت ایک ایسی تحریک بن گئی جسے کنٹرول کرنے کے لئے لاکھوں جتن کئے جا رہے ہیں لیکن حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے تھے جنرل مشرف نے بلوچستان کو تبدیل کرنے کے لئے نام نہاد میگاپروجیکٹ بنائے تاکہ باہرسے لوگ لا کر آبادکاری کے ذریعے آبادی کا توازن بگاڑا جائے ساحل کو الگ کر کے اسے وفاق کا حصہ قرار دیا جائے لیکن عوام نے اس سازش کو ناکامی سے دوچار کر دیا مشرف نے جدید نوآبادیاتی نظام کو ایک اور طرح دی حالانکہ اس کا اپنا تعلق اس سرزمین سے نہیں تھا وہ دہلی کے ایک پناہ گیر تھے لیکن اس کی سوچ کالونی ازم کا آئنیہ دار تھی۔بعد کے حکمرانوں نے بھی اسی نقش قدم کو اپنایا بلوچستان کی معدنی دولت کا کنٹرول حاصل کیا تاکہ تیزی کے ساتھ اس دولت کو ختم کیا جائے جیسے کہ انہوں نے سوئی گیس کے ساتھ کیا تھا لیکن عوام کی جدوجہد سے نام نہاد سی پیک ناکام ہوا اور جدید نوآبادیاتی ودیگر منصوبے بھی کامیاب نہ ہوسکے حکمرانوں نے بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کر نے کی غرض سے افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کی کوئٹہ کے نواحی علاقے ان کے حوالے کئے انہیں چاغی اور نوشکی میں بسایا اور سارے بلوچستان میں پھیلایا لیکن مردم شماری نے ثابت کردیا کہ سازش کے شکار لوگوں کی قطعی اکثریت ہے اگر حکمران عسکریت پسندی کے خلاف ہیں تو وہ ماما قدیر کے خلاف کیوں تھے جو ایک پرامن جہد کار تھے جنہوں نے کبھی بندوق نہیں اٹھائی پھر وہ خوفزدہ کیوں تھے بلکہ اکثر وبیشتر وہ ماما سے خائف رہتے تھے میڈیا کو سخت ہدایات تھیں کہ ماما کو کوریج نہ دی جائے ان کی خبریں شائع نہ کی جائیں ماما جب بلوچ حقوق کی ترجمانی (ایڈوکسی) کے لئے باہر گئے تو پروپیگنڈہ کیا گیا وہ بک گئے ہیں لیکن اپنی موت تک وہ میری دانست میں نہ بکے اور نہ جھکے۔اگرچہ ان کی موت طبعی تھی لیکن دو دہائی انہوں نے جس مصیبت اور آزمائش سے گزارے وہ انہی کا کمال تھا میرے خیال میں پھر بھی وہ زیادہ جی گئے انہیں بہت پہلے مر جانا چاہیے تھا ماما مر تو گئے کیونکہ موت برحق ہے لیکن وہ بہت بڑا ورثہ چھوڑ گئے ان کی لیگسی بہت مضبوط اور شاندار ہے ماما چاہتے تو کیا کچھ حاصل نہ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی آنے والی نسلوں کےلئے وقف کر دی اور خالی ہاتھ چلے گئے ایک ایسے وقت میں جب تاریخ نے نئی کروٹ بدل لی تھی تو”ماما“ کی بہت ضرورت تھی لیکن وہ واپس لوٹ گئے وہ ایک آئیکون اور طوفان شکن انسان تھے وہ چلے گئے تو کیا ہوا اپنے پیچھے ہزاروں جانشین چھوڑ گئے جو علم آگہی اور شعور سے آراستہ ہیں اس خلقت کو چھوٹی چھوٹی بالشت بھر سیاسی جماعتوں کی طرح بلدیات کی چند نشستیں نہیں چاہئیں اور نہ ہی وزیری اور گزیری درکار ہے یہ ماما کا ہی کرشمہ تھا کہ انہوںنے ایک طالع آزما طبقے کو بے نقاب کر دیا۔وہ مراعات اور آسائشوں کے لئے مرے جا رہے ہیں حتیٰ کہ یونین کونسل اور ٹاﺅن کمیٹی کی سیٹ بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ماما کی تحریک نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔پورے بلوچستان میں ایک واضح لکیر نظر آ رہی ہے ایک طرف ماما اور اس کے پرعزم پیروکار ہیں دوسری جانب سارے میرجعفر اور میر قاسم جمع ہیں جو وقت کے فرعونوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں جن کے اندر جرات بے باکی اور حق گوئی کا فقدان ہے وہ وقت کے ظالم نظام کو قانونی جواز پیدا کر رہے ہیں اور یہ دکھا رہے ہیں کہ عوام اس طبقہ کے ساتھ ہے۔
تاریخ کے اہم موڑ پر بڑے نواب صاحب نے جو رہنمائی فراہم کی اور نواب اکبر خان نے جو قربانی دی اسے کون بھول سکتا ہے آج اس قربانی کے لاکھوں وارث موجود ہیں خیربخش مری نہ رہے اور اکبر خان بگٹی نہ رہے لاکھوں فرزندوں نے انہیں بانہوں میں لے کر پوری قوم کے باپ کے مرتبہ پر فائز کر دیا ہے۔ان قربانیوں کو عوام کے ذہنوں میں اجاگر کرنے کا سہرا ماما قدیر کے سربندھ گیا ہے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز1971ءمیں اسٹینڈرڈ بینک خضدار کی چھوٹی سے ملازمت سے کیا اور بالآخر ایک قومی”راہ شون“ بن گئے آج بلوچستان کے طول وعرض میں یا ساری دنیا میں جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں وہاں تک ماما کی شخصیت اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ماما اتحاد یکسوئی اور جدوجہد کی علامت ہیں موجودہ بلوچ جہد کا سارا کریڈٹ ماما کو جاتا ہے جو نظام کہنہ ہے اس کو ملیا میٹ کر کے انقلاب میں بدل دینا یہ کمال بھی ماما کا ہے۔


