حب، لاک ڈاؤن، دہاڑی دار مزدوروں کی مشکلات میں اضافہ

حب(نمائندہ انتخاب) کرونا وائرس کی مزید پھیلاؤ سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اور لاک ڈاؤن سے حب کے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تودسری جانب روزانہ کی بنیاد پر اجرت کمانے والے محنت کش بے روزگار ہونے لگے دن بھر بازار کے سڑک کنارے ہاتھوں میں ٹیکم بیلچہ اور پھاوڑے لیئے کھڑے دوپہر کو خالی ہاتھ واپس لوٹنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان کے گھروں میں فاقے پڑنے لگے ہیں اور انکی نظر یں مخیر حضرات کی راہ دیکھتے تھک جاتی ہیں روزانہ کی بنیاد پر اجرت کمانے والے محنت کشوں کی داد رسی نہ ہونے کے برابر،حب ایک صنعتی علاقہ ہے جہاں پر سینکڑوں کارخانے پیداواری عمل جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم نہ تو صنعتکار کاروں کی جانب سے حب کے غریب محنت کشوں اور بے کس افراد کی مدد کی جارہی ہے اور نہ ہی انہیں راشن دیا جارہا ہے صنعتکار اربوں روپے اس سرزمین سے کمارہے ہیں مگر اس دھرتی پر بسنے والے غریب محنت کش جو کہ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور شام کو اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں انہیں صرف اپنے رب العزت کا آسرا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں انہیں اور انکے بچوں کو بھوکا سونا پڑ رہا ہے کوئی پُر سان حال نہیں ہے،حب کے روازنہ اجرت کمانے والے دیہاڑے دار طبقے کا وفاقی و صوبائی حکومت سے لاک ڈاؤن کے دنوں میں صرف انہیں اشیاء خوردونوش راشن فراہم کرنے کا مطالبہ اس حوالے سے حب کے روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی کمانے والے محنت کشہ طبقہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں کرونا وائرس کے تباہی کے بعد پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسزسامنے آنے کے بعد جسطرح پورے ملک میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا اسی طرح کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر بلوچستان حکومت نے بھی صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جس کے بعد ضلع لسبیلہ اور صنعتی شہر حب میں بھی لاک ڈاؤن شروع کردیا گیا اور دفعہ 144نافذ ہے اور لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوتے ہی حب کے کاروبار مراکز مارکٹیں بند کردی گئی جس سے نہ صرف کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اجرت کمانے والے دیہاڑی پیشہ محنت کش افراد بری طرح مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں صبح 7بجے سے دوپہر 1بجے تک کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کے کنارے میں کھڑے مزدوری کے انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں لیکن کرونا وائرس کے خوف سے انہیں کوئی کام پر نہیں لے جاتا ہے یہ لوگ روزانہ محنت مزدوری کرکے دیہاڑی کما کر شام کو اپنے بچو ں کا پیٹ پال لیتے تھے کام نہ ہونے کے سبب انکے گھروں میں اب فاقے پڑنے شروع ہو چکے ہیں اور انکے بچے بھوکے رہنے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری جانب حب ایک صنعتی شہر ہے یہاں پر سینکڑوں کارخانے قائم ہیں لیکن اس کی مشکل کے حالات میں نہ تو کارخانہ دار اور نہ ہی مخیر حضرات غریب محنت کشوں کی مدد کیلئے سامنے آرہے ہیں حالانکہ امیر غریب سمیت تمام مکتبہ افراد بخوبی آگاہی رکھتے ہیں کہ کرونا وائرس ایک خطرناک وباء ہے اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے لیکن کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک وباء بھوک ہے اس کومٹانے کیلئے غریب محنت کش روزانہ اپنے اور فیملی کے جانوں کو خطرے میں ڈال کر محض اس وجہ سے گھروں سے نکل آتے ہیں کہ انہیں کوئی مزدوری مل سکے اور شام کو اپنے بچوں کو ایک وقت کی روٹی کھلا سکیں لیکن ان غریبو ں کے ساتھ سے کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا جارہا اور نہ ہی انہیں راشن فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے انکی پریشانیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں کوئی پُر سان حال نہیں ہے انھوں نے وفاقی و صوبائی حکومت اور صنعتکاروں اور مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ اس مشکل حالات میں غریب محنت کش طبقہ کا خیال رکھیں اور انہیں اشیاء خوردونوش راشن فراہم کریں تاکہ وہ بھی اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ بیٹھ سکیں اور کرونا وائرس جیسے وباء سے محفوظ رہ سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں