بلوچستان کی شاہراہوں پرموت کا رقص

تحریر اورنگ زیب نادر
افسوس کا مقام ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ابھی تک ایک بھی شاہراہ ڈبل وے نہیں ہے لیکن پنجاب ودیگر صوبوں کے زیادہ تر شاہراہیں ڈبل وے ہیں یہ سراسر ظلم ہے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ روارکھاجارہاہے۔حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ایک سال کے دوران بلوچستان کے مختلف شاہراہوں پر حادثادث کے سبب سے 8 ہزار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے جبکہ پچھلی دہائی میں دہشتگردی کی وجہ سے مارے گئے افراد کی تعدار 2238 ہے اگر دیکھاجائے تو بلوچستان میں سب سے زیادہ اموات ان شاہراہوں کی وجہ سے ہورہی ہیں لیکن حکومت کو کرونا وائرس کی پڑی ہیکہ کرونا وائرس سے لوگ مررہے ہیں لیکن ان شاہراہوں کی وجہ سے اموات نظر ہی نہیں آ رہیہیں۔مکران کے اکثر لوگ کراچی و دیگر شہروں میں علاج معالجہ کے لئے اور بہت کم لوگ سیرو تفریح یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتیہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی ہزار لوگ ان شاہراہوں پر سفر کرتیہیں۔افسوس کی بات ہے کہ اب تک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے ایک بھی شاہراہ ڈبل وے نہیں ہے۔کوئٹہ ٹو کراچی شاہراہ 813 کلو میٹر (505) میل ہے اور اسے آر سی ڈی شاہراہ بھی کہا جاتاہے۔یہ شاہراہ مہلک کا مرکز بھی کہا جاتاہے، جو 42 فیصد پاکستان کا احاطہ کرتا ہے.یہ سنگل شاہراہ 10 بڑے شہروں سے گزرتی ہے مقامی لوگ اس شاہراہ کو قاتل روڈ کہتیہیں کیونکہ ایک سال کے دوران یہاں 800 سے زائد حادثات رونما ہوچکیہیں۔سال 2019 کے اپریل میں کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ پر مسافر وین ٹریک سے ٹکرا گئے اور بارش کی وجہ پھسل کر دوسری طرف جاکے گرگئے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے نو افراد کی موت واقع ہوئی جو کوئٹہ میں جنازے میں شرکت کرنے کے لئے جا رہیتھے۔کچھ عرصہ قبل کراچی سے پنجگور ایک مسافر بس 27 مسافروں کے ساتھ پنچگور کی طرف روانہ ہوا تو جب لسبیلہ کا مقام آیا تو ٹریک سے ٹکرا گئے جس کے نتیجہ میں بس آگ کی لپیٹ میں آگیا تو سارے مسافر جل کر راکھ ہوگئے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے یہ دردناک واقعہ نے سارے بلوچستان کو سوگوار کردیا۔اسی طرح سابق کمشنر مکران شہید طارق قمر زہری جو اپنے ڈرائیور اور گن مین کے ہمراہ اپنے گھر جارہے تھے تو راستہ میں تیل بردار گاڑی ٹکرا گئے تو گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی تو کمشنر اپنے ڈرائیور اور گن میں سمیت خالق حقیقی سے جاملا۔ صرف یہ نہیں اور کئی قیمیتی جانیں اور اثاثے ان خونی شاہراہوں کی زد میں آچکیہیں۔گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی حادثہ رونما ہوا جو اوتھل کے مقام پر پیش آیا جو پنجگور میں جارہاتھا تو راستے میں حادثے کا شکار ہوا جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ان شاہراہوں پر لاتعداد حادثات رونما ہوئے ہیں۔شاہراہوں میں دن بدن حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہا ہے اور یہ بلوچستان میں معمول بن چکاہے۔ بلوچستان میں شاہراوں پر حادثات دہشگردی سے بڑا مسئلہ ہے۔سالانہ اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن ان شاہراوں پر نہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔جب کوئی حادثہ رونما ہوتاہے تو وقتی طور پر قانون بنائے جاتے ہیں اور کاروائی عمل میں لائی جاتی ہیلیکن بدقستمی کچھ عرصہ گذرنے کے بعد سب کچھ بھلادیاجاتاہے۔یہ نہیں کہ سارے حادثات کا سبب سنگل روڈ ہے بلکہ بیشتر حادثات کا سبب یہی ہے اور کچھ اور اسپیڈنگ کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ٹرانسپورٹرز کے لئے قوانین عمل میں لایاجائے۔اب ہم میں مزید لاشیں اٹھانے کی ہمت نہیں ہے لہذا وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ مزید قیمتی جانے ضائع ہونے سے بچ سکیں۔