”منگو کوچوان“ اور سینیٹ کے انتخابات

تحریر:تانیہ بلوچ
آپ میں سے اگر کسی نے منٹو کا کا افسانہ ”نیاقانون“ پڑھا ہوگا تو وہ اس افسانے کے مرکزی کردار ”استاد منگو“ سے ضرور واقف ہوں گے۔استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک کوچوان تھا اور چھا?نی کے گورے اسے بہت ستایاکرتے تھے اسی وجہ سے وہ ہندو?ں اورمسلمانوں کے درمیان فساد کواچھا نہیں سمجھتا تھا اس کا کہنا تھا کہ انگریز چلاجائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا۔ایک روز استاد منگو نے دوسواریوں سے سنا کہ ملک میں نیا قانون آنے والا ہے………… ہر چیز اب بدل جائے گی بس پھر کیا تھا وہ زور سے ہاتھ ہلاہلاکر کر نئے قانون سے متعلق اپنے دوستوں سے بحث کرتا اور انہیں یقین دلاتا کہ یہ نیاقانون ہندوستان کی قسمت بدل دے گا نیا قانون گویاکہ اس کیلئے کوئی نئی چیز تھی.
سینیٹ کے انتخابات ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہورہے ہیں لیکن یہ انتخابات ہردور میں اہم رہے ہیں۔ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے سے اقتدار میں موجودجماعت کوقانون سازی میں آسانی رہتی ہے یوں تو پاکستان میں توجہ کا مرکز قومی اسمبلی رہتی ہے لیکن سینیٹ کو اس کے انتخابات کے دوران خاص توجہ حاصل ہوجاتی ہے۔
اس مرتبہ بھی سینیٹ کا میدان سج چکا ہے حکومتی جماعتوں،اتحادیوں اور اپوزیشن نے اپنی بھرپور تیاری کررکھی ہے لیکن اس تیاری کے ساتھ ساتھ ہمیں روایت کے عین مطابق کچھ غیر پارلیمانی الفاظوں کااستعمال جیسے کہ ”منڈی“ ”بکا?“ اور ”تعلقات“ کے دبا? جیسے استعمال آزادانہ نظر آرہا ہے۔
یہ غالباً2003ء میں بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے اس وقت کھلبلی مچادی تھی جب انہوں نے سینیٹ کے انتخابات کیلئے دی جانیوالی رقم واپس کردی تھی یوں تو سینیٹ انتخابات کامرحلہ پاکستان بھر کیلئے افواہوں اور قیاس آرائیوں پرمبنی ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے جب دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی کاروباری وابستگیوں سے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور عوام کو یہ ایک عام تاثر جاتا ہے کہ بلوچستان کو دی گئی نشستوں پر بولیاں صرف بلوچستان ہی سے نہیں دوسرے صوبوں سے بھی لگائی جاتی ہیں یہ معاملات اس وقت ایک عجیب موڑ پر آگئے جب پہلے بلوچستان سے حکومتی جماعت ”باپ“ پارٹی نے اپنی جماعت سے ایک غیر معروف کاروباری شخصیت عبدالقادر صاحب کو جنرل سیٹ سے ٹکٹ جاری کیا سب حیران پریشان کہ یہ موصوف کون ہیں۔باپ پارٹی کے اکثر رہنما خود ہکا بکا تھے یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا محترم کو تحریک انصاف نے اپنا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ٹکٹ جاری کردیا جب اسد عمر سمیت کئی دیگر اہم رہنما?ں نے ان سے لاتعلقی کااظہار کیا جس پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا سننے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمد رند نے اس پر خوب شور مچایا خیر اب سننے میں آیا ہے کہ موصوف ان دونوں پارٹیوں ں سے تنگ ”آزاد“حیثیت سے ایک بارپھر کاغذات نامزدگی جمع کروادیئے ہیں جہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات سے ملک بھر میں صوبوں کو یکساں نمائندگی دی جائے گی اور جو صوبے پسماندگی کاشکار ہیں وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنی آواز کوقانون سازی کاحصہ بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے ان کی امید اس وقت مزید مایوسی کاشکار ہوتی نظرآتی ہیں جب خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک رہنے والی سینیٹرصاحبہ ستارہ ایاز کو ”باپ“ پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہے اور پارٹی سے منسلک تمام لوگوں کی امیدوں پر پانی پھرجاتا ہے کہ پارٹیوں میں مقام جدوجہد سے حاصل کیاجاتا ہے۔
جب ”باپ“ پارٹی بلوچستان کے موجودہ سینیٹر سرفراز بگٹی صاحب سے اس پر ان کی رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ آئین اور قانون سے منحرف اقدام نہیں محترمہ کاتعلق اب عوامی نیشنل پارٹی سے نہیں ہے اور کے پی کے پاکستان ہی کا حصہ ہے تو ہماری پارٹی اس وقت خود کو صرف بلوچستان کی حد تک محدود نہیں کرناچاہتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی سیاسی محرکات کے پیش نظر سینیٹ انتخابات کے نتائج انتہائی دلچسپ ہوں گے۔ اس وقت حکمران اتحاد کے 41 ارکان ہیں اور حزب اختلاف کے 65 ممبروں کی صوبائی اسمبلی میں 24 ممبران ہیں۔ سینیٹ کی 12 انتخابی نشستیں دو ممکنہ منظرناموں میں حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے ذریعہ مختلف تناسب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ دونوں منظرنامے اس قیاس پر مبنی ہیں کہ سیاسی نظم و ضبط میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آئے گی، 2018 کے انتخابات کے برعکس جہاں مسلم لیگ (ن) کے اکثریتی اراکین نے راتوں رات بی اے پی کی تشکیل اختیار کی۔
اس منظر نامے میں، امید ہے کہ حکمران اتحاد سینیٹ کی آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گا اور چار حزب اختلاف میں جائیں گے۔ بی اے پی سے چھ، پی ٹی آئی اور اے این پی کو ایک ایک جیتنے کی امید ہوگی۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بی این پی – مینگل اور جے یو آئی-ایف دونوں کو دو سیٹیں حاصل ہوں گی۔ بی اے پی کی زیر قیادت حکومت کے لئے یہ ایک مثالی منظر نامہ ہوگا۔
اس وقت ہمیں 2009ء میں پہلی بار سینیٹرمنتخب ہونے والے نیشنل پارٹی کے اہم رہنما حاصل بزنجو مرحوم کے وہ الفاظ یاد کررہے ہیں کہ جو جولائی2019ء میں پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے متحدہ چیئرمین کے طور پر متفقہ طور پر امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔
اس عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سوتین میں سے سڑسٹھ ارکان کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد موجودہ چیئرمین کا اپنے منصب سے ہٹنا یقینی تھا لیکن اس کے باوجود خفیہ ووٹنگ کے مطلوبہ ووٹوں سے انہیں کم ووٹ ملے اور انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”آج کون جیتا“ اور ارکان کی خریدوفروخت اورضمیر فروشی کے اعتبار سے اس دن کو پاکستان کی پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہاجائے گا۔
گوکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول خود عمران خان نے خود ان انتخابات کو پیسہ بنانے کی منڈی قراردیا وہاں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کو سینیٹ میں نمائندگی کے کیاخاطرخواہ نتائج نظرآئے جہاں عثمان کاکڑ،جہانزیب جمالدینی اور کہرشہی جیسے دیگر سینیٹر بلوچستان کی آواز بنتے نظرآئے وہاں بہت سے سینیٹرصرف اسلام آباد میں قیام اور مراعات تک محدود ہی نظرآئے بہرحال ہم منٹو کے افسانے ”نیاقانون“ کے مرکزی کردار ”منگوکوچوان“ کی بات کررہے تھے جو فسانے کے آخر میں ایک گورے کو اس وجہ سے پیٹتا رہااورچلاتا رہا کہ ”وہ دن گزرگئے اب نیاقانون ہے میاں…” اور پولیس کے سپاہی آتے ہیں اوراسے تھانے لے جاتے ہوئے جواب دیا کہ کیا بک رہے ہو…… قانون وہی ہے۔اب بھلا ان نگرانوں کی نگرانی کون کرے گا کیونکہ ہمارے یہاں قانون بھی وہی ہے اور حالات بھی وہی……“