غلامی کا تسلسل
ڈاکٹر مصباح ہارون
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں,
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں.
جس طرح طوطے کو پنجرے میں لمبے عرصے رکھو تو وہ اڑنا چھوڑ دیتا ہے اور اگر اڑ بھی جائے تو اس کو چیل پکڑ کر کھا جاتی ہے. اسی طرح جب شیر کو سرکس میں لمبے عرصے رکھو تو وہ شیر نہیں بلی بن جاتا ہے اور اپنی طاقت کی قوت بھول کر چابْک کے ڈر سے ادھر ادھر دبکر رہتا ہے.
اگر ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل جاتے تو ہندوؤں کی غلامی میں چلے جاتے اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ملک بنانا ناگزیر ہو چکا تھا. مگر کبھی یہ ہمیں اس طرح سوچنے نہیں دیتے کہ کھجور کا ٹپکا اونٹ پر اٹکا. انگریزوں کی غلامی سے پہلے ہم افغانیوں, منگولوں, ایرانیوں, سینٹرل ایشیائی, عربیوں اور ہندو مہاراجاؤں کی غلامی ہم میں ہنسی خوشی, ناچ گا کر جی رہے تھے. انگریز اور ہندوؤں سے بچ کر اب ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے کتے نہلانے والوں کی غلامی میں آ گئے ہیں جو کہ ہندوستان میں بھاگ جانے والے ہندوؤں کی جاگیروں پر لوٹ کھسوٹ اور قبضہ کرکے آج بڑے بڑے چودھری اور وڈیرے بن کر بیٹھے ہیں. آج کی نوجوان نسل یونیورسٹی میں جدید تعلیمات لینے کے ساتھ عیاشی, نشے اور ہر برائی کی طرف راغب ہو رہی ہے. ہم جتنا بھی شترمرغ کی طرح اپنا سر زمین میں کیوں نہ گاڑھ لیں مگر برائی پر آنکھ بند کرنے سے برائی رکتی نہیں کرونا وائرس کے مانند پھیلتی رہتی ہے. یونیورسٹیز کا یہ حال ہے تو بیچارے مدرسے کے طالبعلم وہ تو ہیں ہی out casted شہری, ان بیچاروں کو تو پوری دنیا ہی کیا بلکہ اب خود پاکستانی فسادی اور جہادی سمجھنے لگ گئے ہیں. باقی بچ گئی %10 کریم ‘ٹیلنٹڈ لوگ’ تو وہ یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ پاکستان نامی pithole سے نکل کر انگلینڈ یا امریکہ میں چلے جائیں یعنی ان ملکوں میں دوبارہ چلے جائیں جن سے آزادی لینے کا ایک ڈرامہ رچایا گیا تھا.
آج ہمارا نوجوان شکست خوردہ حالت میں کھڑا ہے. تعلیم ہے تو نوکری نہیں, نوکری نہیں تو چاکری بھی نہیں. جس طرح سرسیداحمدخان نامی ‘فریمیسن’ نے مسلمان نوجوانوں کو اپنے اپنے کام دھندے, کاروبار اور تجارت سے نکال کر انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس لیے راغب کیا کہ تعلیم حاصل کرنے سے گورا صاحب کے پاس کلرکی کی سرکاری نوکری ملے گی, وردی ملے گی, عزت ملے گی اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملے گی تو آج تک تمام برصغیر کے نوجوانوں کی سوچ بھی وہی اٹکی ہے کہ کسی طرح ہمیں سرکاری نوکری مل جائے پھر ہم آم کھائیں گے نہ کہ درخت گنیں گے.
ایسے نوجوانوں کا کیا کریں جو چائنیز کی طرح افیم کا نشہ نہ کرنے کے باوجود غلامی کے بدتر نشے میں مبتلا ہیں. غلامی کیا ہے, غلام سوچ کبھی عملی کام نہیں کرتی اور اگر عملی کام کرے بھی تو وہ اتنا معیاری نہیں ہوتا جس پر ہم فخر کر سکیں کیونکہ وہ جگاڑی کام ہوتا ہے. غلامی کی مثال ٹوٹے تیر, بغیر گولی کے پستول, زنگ کھائی تلوار یا قلم بغیر سیاسی کے ہوتی ہے اور جو اس غلامی کی طرف راغب نہیں ہوگا وہ تو ہے ہی ملک دشمن, غدار, انڈیا اور افغانی ایجنٹ.
ہماری سوچ میں بھی غلامی کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے, مسجد جاؤ تو دین کی غلامی, اسکول آؤ تو کتابوں کی غلامی, گھر جاؤں تو ماں باپ کی غلامی اور غلطی سے اگر کھیل کے میدان میں چلے جاؤ تو کپتان کی غلامی. ایسی غلامانہ سوچ رکھنے والا معاشرہ آج جہاں کھڑا ہے وہ اب بھی یہاں نہیں کھڑا ہوگا تو کہاں کھڑا ہوگا, کیا وہ ترقی میں امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑے گا؟
آخر میں ہاتھ جوڑھ کر جیسے ہندو نمستے کرتے ہیں ویسے ہاتھ جوڑھ کر معافی مانگتا ہوں اور salute کرتا ہوں کیونکہ آج میں نے سوچنے کے بجائے لکھنے کی ہمت و جرت کردی ہے. مہربانی فرماکر مجھے انڈیا افغانی یا موساد کا ایجنٹ نہ بنایا جائے مگر اگر میرے کالم میں غلامی نہیں مل رہی تو مجھے جلاوطن کرکے چائنا کے بارڈر پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ میں اب سینٹرل ایشیائی, عربی, افغانی, مغل, ہندو مہاراجاؤں, ایسٹ انڈیا کمپنی, برٹش انڈیا اور امریکہ کی غلامی سے آزادی حاصل کر چکا ہوں. اب میں جناب چیئرمین ماو زے دونگ کی شاگردی حاصل کرنا چاہوں گا. ماؤ جیسا بھی تھا لیکن اس کی ایک بات پتھر پر لکیر تھی کہ, ‘ہم عزم اور ہمت کے ساتھ تو پہاڑ کو بھی اسکی جگہ سے ہٹا سکتے ہیں ‘… تو یہ غلامی چیز ہی کیا ہے؟
اگر دہشتگرد سمجھ کر گولی مارنی ہو تو میرے قلم یا میری سوچ سے جو بھی گستاخی ہوگئی ہے میں اس کی معافی مانگتا ہوں اگر معافی نہ ملے تو میرے خاندانی کاروبار کی جگہ پر مجھے crucify کر کے گولی ماری جائے. پھر بھی میری لاش اس غلام ذہنیت ملک میں نہ دفنائیں جائے, میری لاش کو بھی چائنا میں بھیج دیا جائے کیونکہ وہاں بہادر اور سچ بول کر مرنے والوں کی قدر اس کی لاش حنوط کرکے شیشے کی قبر میں رکھ کر کی جاتی ہے.