مولانا طارق جمیل کی جنت
تحریر: انورساجدی
جب سے مولانا طارق جمیل نے ملبوسات کے اپنے برانڈ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے میرا دل مولانا کے اس عمل پر کالم لکھنے کو مچل رہا تھا لیکن مصروفیات کی وجہ سے فرصت نہیں ملی ویسے تو کاروبار کرنا اچھا عمل ہے منافع کمانا بھی درست اسلام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ عین سنت ہے ناقدین تو اعتراض کرتے رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مولانا آسمان سے چھوتی ہوئی اپنی شہرت مسلمانوں میں اپنے اعلیٰ مقام اور اپنی سحر انگیز خوش گفتاری کو اپنے برانڈ کے ذریعے کیش کررہے ہیں انہیں مالی مشکلات کا سامنا بھی نہیں تھا گوگل سے انہیں کئی مرتبہ ”گولڈن کی“ بھی مل چکا ہے گولڈن کی ان لوگوں کو دی جاتی ہے جنہیں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ سنتے ہوں وہاں سے بھی اس برگزیدہ ہستی کی اچھی خاصی آمدنی ہے ملک کے بڑے سرمایہ دار اور صنعتکار اپنی سماجی تقریبات میں مولانا کو بلانا اعجاز سمجھتے ہیں وہ اکثر و بیشتر ارب پتی شخصیات کے بچوں کا نکاح بھی پڑھاتے ہیں ناقدین کے دعوے کے مطابق انہیں اس کے عوض ایک ملین سے زائد نقد رقم اور بیش بہا تحائف اور خلعت بھی دی جاتی ہے اس سال کے شروع میں مولانا نے گوجرانوالہ کے دو ارب پتی صنعتکاروں کے بچوں کا نکاح پڑھایا سوشل میڈیا پر الزام لگاکہ انہوں نے فریقین سے ایک ایک ملین کی سوغات لی ہے مولانا نے اس کی بروقت تردید کی ہاں یہ نکتہ ضرور وزن رکھتا ہے کہ مولانا نے شاذو نادر کسی غریب جوڑے کا نکاح پڑھایا ہو کیونکہ ان کی کلاس غریبوں سے جدا ہوگئی ہے۔
اس وقت انہیں اشرافیہ کا حصہ ہونے کا شرف حاصل ہے اقتدار اور دربار تک رسائی بھی حاصل ہے عملی طور پر وہ اس وقت وزیراعظم کے مشیر کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اکثر مولانا سے رہنمائی حاصل کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات ماننے کی ہے کہ انہیں مختلف موضوعات پر عبور حاصل ہے اگرچہ بعض جید علماء نے ان کی علمیت پر سوال اٹھایا ہے لیکن عوام پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا مختلف چینلوں تبلیغی اجتماعات اور روسا کی ذاتی محفلوں میں ان کا درس تواتر کے ساتھ جاری ہے روزانہ لاکھوں لوگ ان کا درس سنتے ہیں۔
مبلغ تو مولانا سے بھی بڑے گزرے ہیں لیکن وہ اتنی مقبولیت اس لئے حاصل نہ کرسکے کہ وہ ڈیجیٹل دور نہیں تھا جبکہ مولانا کی خوش قسمتی ہے کہ وہ موجودہ عہد سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کسی زمانے میں مولانا امیر محمد بجلی گھرکا درس بہت مقبول تھا وہ ساری رات خطاب کرتے تھے اور نوجوان بڑے شوق اور رغبت سے ان کی باتیں سنتے تھے حالانکہ مولانا بجلی گھر بڑے عالم تھے لیکن مخالفین ان کی گفتگو میں فحاش کا پہلو دیکھتے تھے اور اعتراض کرتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں مولانا طارق جمیل کو زبان و بیان پر زیادہ قدوت حاصل ہے عام طور پر ان کی گفتگو شائستگی اور تہذیب کا مظہر ہوتی ہے گوکہ جنت اور حوروں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا چوک جاتے ہیں علماء کے مطابق بعض مرتبہ وہ غلط حوالے بھی دیتے ہیں لیکن انداز اتنا دلنشین ہے کہ سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے بجلی گھر اور مولانا کے انداز بیان میں کیا فرق ہے بجلی گھرکے خطاب کے اس حصے سے فرق واضح ہوتا ہے۔
کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا بجلی گھر نے کہا کہ آج کل ٖفحاشی بہت عام ہے بے حیائی اور بے پردگی کا دور دورہ ہے جب سنگ مرمر جیسے تراشیدہ بدن تنگ و چست لباس پہنتے ہیں تو فحاشی کو پھیلنے سے کون روک سکتا ہے لڑکیاں اپنی مرمریں باہوں کو لباس سے آزاد کرکے اور اونچی ہیل کے جوتے پہن کر مٹک مٹک کر چلتی ہیں تو کون کم بخت ہے جو انہیں جی بھر کر نہیں دیکھتا ہوگا زوق برق لباس کسی کا رنگ سفید شفاف کسی کا عنابی کسی کا گلابی اور کسی کا دو آئشہ گلابی ہوتا ہے معاشرے میں اس بے پردگی اور بے ہودگی کو روکنا ہوگا ورنہ یہ ریاست فواحش منکرات کا مرکز ہوگی۔
مولانا طارق جمیل جنت اور حوروں کا ذکر کرتے ہوئے نہایت شائستگی سے فرماتے ہیں حوروں کا قد 70 میٹر لمبا ہوتا ہے ان کا رنگ مکھن کی طرح سفید قدرے گلابی رنگ کی آمیزش جیسی ہوتی ہے حوروں کے حسن و جمال کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ایک حور بھی رات کو زمین پر اتر جائے تو رات دن ہوجائے۔
حوروں کا لباس اتنا بے داغ اور شفاف ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا تصور کرنا ہی محال ہے ہر مرد کے حصے میں 70 حوریں آئیں گی جو عندالطلب ان کی خدمت کریں گی شراب دودھ اور شہد کی نہروں سے ہیرے سونے اور جواہر والے برتن ڈبو کر ان کی خدمت میں پیش کریں گی۔
کئی لوگوں کا سوال ہے کہ مولانا یہ جو جنت اور حوروں کی دلفریب منظر کشی کرتے ہیں یہ انہوں نے کہاں سے پڑھا اور سنا ہے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ حوروں کے حسن و جمال کا بیان سن کر کئی لوگوں کا جی چاہتا ہے کہ وہ جلد ہی آخرت کے سفر پر روانہ ہوجائیں مولانا یہ تلقین بھی کرتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اصلی اور ابدی دنیا آخرت ہے لہٰذا اس عارضی دنیا کی فکر چھوڑ دو اور ابدی دنیا کا سامان کرو مولانا اور ان کے تبلیغی ساتھیوں کی تلقین سن کر ہزاروں مسلمان نوجوان اس عارضی دنیا کو تیاگ چکے ہیں وہ گھر بار اور اولاد کو چھوڑ کر دور دراز علاقوں کو نکل جاتے ہیں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں مولانا نے شاذو نادر ہی درس دیا ہو کہ ”دین اور دنیا میں توازن“ رکھنا لازمی ہے ان کا درس یک طرفہ ہوتا ہے اس لئے جب انہوں نے 64 سال کی عمر میں ملبوسات کے اپنے برانڈ لانچ کرنے کا اعلان کیا تو لوگ حیرت زدہ ہوگئے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تو اپنا کاروبار مولانا کے کہنے پر ترک کردیا لیکن مولانا نے آخرت کے ساتھ اس پیرانہ سالی میں اس عارضی دنیا میں کاروبار کا سوچا ہے بہرحال جو بھی ہو جب مولانا اپنے کارخانے میں مستورات کیلئے لباس ڈیزائن کروائیں گے تو ان کے ذہن میں جنت کے حوروں کا سروقد اور حسن و جمال ہوگاچنانچہ ان کے ڈیزائن کردہ ملبوسات بالکل الگ تھلگ ہونگے وہ تصور میں حوروں کو دیکھ کر ان کے سرایا کے مطابق کپڑے تیار کروائیں گے یہ کام مولانا سے پہلے ان کے شاگرد جنید جمشید نے شروع کیا تھا ان کے برانڈ جے کو بڑی مقبولیت ملی تھی ان کے ملبوسات میں خواتین سے زیادہ مردانہ لباس زیادہ مہنگے ہوتے تھے دولہا کی ایک اچکن کی قیمت ڈیڑھ دو لاکھ تک ہوتی تھی اور اچکن کے اوپر پہننے کی مردانہ چادر 70 ہزار سے زائد قیمت کی ہوتی تھی مولانا کے مشورے پر جنید جمشید نے گانا بجانا ترک کردیا تھا اور نعت خواں بن گئے تھے موصوف سابق آمرجنرل پرویز مشرف کے سکینڈ کزن تھے چونکہ جنید جمشید کا دینی علوم پر دسترس کم تھی اس لئے ایک مرتبہ ٹی وی پر بیان کے دوران ان سے غلطی ہوگئی جس پر مولانا خادم رضوی کے شاگردوں نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی لیکن مولانا نے درمیان میں آکر ان کی جان خلاصی کی جنید جمشید نے مولانا کے کہنے پر تبلیغ کا کام بھی شروع کردیا تھا لیکن زندگی کے آخری سفر میں ان سے سفید جھوٹ سرزد ہوگیا وہ نئی شادی کرکے ہنی مون منانے چترال گئے تھے لیکن اپنی بڑی بیگم کے ساتھ جھوٹ بولا تھا کہ وہ تبلیغ پر جارہے ہیں ہوائی جہاز کے حادثے نے اصل حقیقت کو آشکار کردیا میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل کا برانڈ خوب چلے گا ملک کے تمام روسا اور علماء ان کے تیار کردہ ملبوسات دھڑا دھڑ خریدیں گے لیکن ساتھ ہی مولانا کی علمی شخصیت کا وصال بھی ہوجائے گا لوگ سمجھیں گے کہ یہ مولانا ہمیں جس جنت کے منظر دکھاتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جنت ہے یاکیپئین سی کے قریب واقعے حسن بن سبا کی جعلی جنت کے منظرنامے تھے بعداز مرگ جو دلکش اور ہولناک منظرنامے مولانا نے بیان کئے ہیں وہ آج تک کسی اور عالم نے بیان نہیں کئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے ایک جنت اصلی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت گزار بندوں کیلئے قائم کی ہے ایک جعلی جنت حسن بن سبا کی تھی جس کے ذریعے نوجوانوں کو خودکش حملوں کیلئے تیار کیا جاتا تھا یہ تیسری جنت مولانا طارق جمیل کے تخیلات پر مبنی ہے جس کے دلکش مناظر بیان کرتے میں مولانا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لوگ ضرور یہ سمجھتے ہوں کہ جو لباس انہوں نے تیار کیا ہے جنت میں مقیم لوگ اور ان کی حوریں ضرور یہی لباس زیب تن کرتی ہونگی اس دنیا کی خواتین مولانا کے خوبصورت لباس پہن کر ضرور دلکش نظر آئیں گی لیکن جنت کی حوروں کو جو لباس میسر ہونگے وہ وہاں جانے والی خواتین کو دستیاب نہیں ہونگے کیونکہ مولانا کو حوروں کی منظرکشی سے فرصت ہو تو جنت جانے والی خواتین کا حال بیان کریں اور یہ بتائیں کہ نیک خواتین کو جنت میں کیا کیا آسائشیں نصیب ہونگی یا ساری آسائشیں مردوں کیلئے مخصوص ہونگی۔