بلوچستان کے مسائل کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیاہے، لشکری رئیسانی

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمانوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے آزادی صحافت پر قدغن کے ذمہ داراسٹیبلشمنٹ کیساتھ میڈیا مالکان بھی ہیں، بلوچستان کے مسائل کو قومی میڈیا میں بلیک آٹ کرکے صوبے کے لوگوں کے انسانی، جمہوری اور آئینی حقوق پامال حصول انصاف کیلئے عدالتوں کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ یہ بات انہوں نے پیر کے روز آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، سینئر نائب صدر سلیم شاہد، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند، جنرل سیکرٹری بنارس خان، آصف بلو چ، ظفر بلوچ سمیت دیگر سینئر صحافی رہنماں اظہار یکجہتی کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس موقع پرنوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہا کہ ملک میں آزادی صحافت پر عائد پا بندیوں اور قدغن کے ذمہ داراسٹیبلشمنٹ کیساتھ میڈیا مالکان بھی ہیں، اپنے مالی مفادات، ٹیکس چوری اور دیگر معاملات کو چھپانے کیلئے میڈیا ہاسز پر عائد پابندیوں سے لوگوں کو سچ سننے کا موقع نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا رجحان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ہٹ کر سوشل میڈیا کی طرف بڑھ رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر خرافات کیساتھ کیساتھ کچھ لوگ سچ بولنے کی جرات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کی بنیاد میرے والد شہید نواب غوث بخش رئیسانی نے1970کی دہائی میں رکھی تھی کیونکہ وہ آزادی صحافت پر یقین رکھنے کیساتھ ساتھ یہ چاہتے تھے کہ بلوچستان کے لوگوں کی آواز بلند ہو۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ پاکستان میں چین جیسا نظام رائج کرنے کیلئے ملکی اداروں کو مفلوج کیا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں، لاپتہ افراد کے اہلخانہ سمیت صحافی بھی سراپا احتجاج ہیں جس کا حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے جب پارلیمنٹ پالیسیاں تشکیل دے گی تو کسی کو دس دس سالوں تک پریس کلب کے سامنے احتجاج پر نہیں بیٹھنا پڑے گا مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پارلیمنٹ مفلوج سیاسی جماعتیں ڈیل کرکے اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں پاکستان آزادی صحافت کے حوالے سے 145 وین نمبر پر ہے۔نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو قومی میڈیا میں بلیک آٹ کرکے صوبے کے لوگوں پر انسانی، جمہوری اور آئینی حقوق پامال حصول انصاف کیلئے عدالتوں کے دروازے بند کئے گئے ہیں جس کی واضح مثال کوئٹہ کے حلقہ این اے 265 کی ہے جہاں ہونے والی انتخابی بے ضابطگی اور الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف گزشتہ تین سالوں سے کیس عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں