اسیرانِ اضطراب اور سماجی خوف

تحریر ۔۔۔۔نجیب اللہ زہری

اضطرابی کیفیت ایک ایسی بیماری ہے جو کہ انسان کو حوادث کی دنیا میں مقید کرتی ہے جہاں خیالاتِ خام اور چند عارضی خوش فہمیوں کے بِنا کچھ بھی نہیں – بظاہر تو یہ ایک کیفیت لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بیماری ہے

ڈنمارک کے مینٹل ہیلتھ سینٹر نے نفسیاتی مریضوں کے رشتہ داروں کے لئے کتابچہ شائع کیا جس میں اضطرابی کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا گیا کہ اضطراب خطرے کے زیر اثر آنے پر ایک عام فطری، انسانی ردعمل ہے۔ اضطراب کا احساس جسم کو خبر دار کرتا ہے اور جسم کو یا تو
لڑنے کے لیے یا بھاگنے اور پناہ تلاش کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔اضطراب صرف اس وقت بیماری ہوتی ہے جب وہ ناقابل برداشت حد تک محسوس ہوتا ہے اور آپ کو ایک معمول کی زندگی گزارنے سے قاصر کرتا ہے۔ اس کی مثالوں میں اضطراب کے اچانک دورے پڑنا یا معمول کی زندگی کے عام مسائل کے سلسلہ میں بے حد فکر مند ہونا شامل ہیں۔

اضطراب ایسی انفرادی علامات کے ساتھ بتدریج بڑھتا ہے جو عمومی
احتیاط یا عمومی پریشانیوں کے ساتھ خلط ملط کی جاسکتی ہیں۔ مثال اس میں لوگوں کے بڑے گروپوں میں ہونے کے تعلق سے احتیاط یا
کام یا تعلیم سے متعلق پریشانیاں شامل ہیں۔ تاہم، اضطراب شدید دورے کی صورت میں بھی اچانک شروع ہوسکتا ہے جن میں دورے کے
سبب کی نشان دہی ممکن نہیں ہوتی۔اضطراب، دماغی عارضوں میں سب سے زیادہ عام ترین ہے۔ بیشتر معاملات میں اضطراب موروثی سماجی عوامل کا امتزاج ہے۔اضطراب کا علاج ہوسکتا ہے اور زیادہ تر معاملات میں علامات کا نمایاں طور پر یا مکمل ازالہ یا خاتمہ بھی ممکن ہے۔جتنی جلد اضطراب کا سراغ لگا لیا جائے علاج میں اتنی ہی آسانی ہوتی ہے۔

یہ رپورٹ ڈنمارک کے مینٹل ہیلتھ سینٹر کی طرف سے شائع ہوئی ہے اس رپورٹ کو پڑھنے کے دوران اندازہ ہوا کہ موجودہ دور میں ہر پیر و جوان بلکہ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ اضطرابی کیفیات سے متاثر ہے جس کی وجہ سے کسی بھی کارآمد فیصلے کے لئے انسانی دماغ جمود کا شکار ہے اگر معاشرتی نظام عمل میں بغور غوطہ زن ہوں تو بخوبی اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے طالب علم اپنی تعلیمی معاملات اور مستقبل کے لئے بہتر فیصلہ کرنے کے حوالے سے تجسس و اضطراب میں مبتلا ہیں – تاجر اپنی تجارت کے فروغ – علی القیاس معاشرے کا ہر فرد کسی نہ کسی معاملے کو لیکر اس بیماری کا شکار رہتا ہے –

اس کیفیت کا علاج ممکن ہے اس کے لئے اوّلین شرائط یہ ہیں کہ سب سے پہلے اُن اسباب و علل کو تلاش کرنا ہوتا ہے جن کی وجہ سے انسانی دماغ جمود کا شکار ہے جب ان عوامل کا ادراک ہوجائے تو صاحب خرد و فہم اپنا علاج خود ممکن بنا سکتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی سائنسی تجربات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ خود کو مضبوط اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے تیار رکھنا ہوتا ہے –

بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ایسی بیماریاں چند عارضے و عوامل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں جو کہ ہمارے معاشرے میں عام اور معمولی سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا خوف، سماجی خوف، یا کسی مخصوص حالات کے وقوع کا خوف، یہ وہ بنیاد عارضے و عوامل ہیں جو کہ اس کیفیت کو انسانی دماغ میں تقویت فراہم کرتے ہیں-

اس کیفیت میں باقی عوامل کا حملہ بہت کم پایا جاتا ہے مگر سماجی خوف کا جو حملہ ہے وہ اپنی نوعیت میں بقدر اشد مؤثر ہوتا ہے اور کسی اچھے کام کی طرف رغبت بھی ممکن بنا سکتا ہے اور برے کام کی طرف رغبت کو بڑھا سکتا ہے مگر ماہرین نفسیات کے مطابق برے و بے معنی کاموں کی طرف رغبت کا بڑھنا زیادہ ممکنات میں شمار ہوتا ہے –

محققانہ انداز میں دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سماجی برائیوں کا اثر یا سماجی دباؤ کا اثر انسانی دماغ کو جمودیت کی طرف لیکر جاتے ہیں آئے روز قتل و غارت، چادر و چاردیواری کی پامالی، اپنے مال و عزتِ نفس کا خوف بھی سماجی بُرائیوں میں بدترین شمار ہوتے ہیں اسی طرح سماجی دباؤ تعلیم میں ناکامی. کاروبار میں ناکامی، رشتوں کے تضادات کا خوف یہ سب وہ عوامل ہیں جو سماجی خوف سے پیدا ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی میں رکاوٹ بنتے ہیں – ان سب کے خاتمے کے لئے علمی و اخلاقی اقدار کو عام کرنا، ثقافت و روایات کو اپنی بنیادی تربیت و ضرورتوں میں شمار کرنا ہوگا –

کسی بھی قوم و ملت کی ترقی و کامیابی میں نوجوان نسل کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے مگر افسوس ہمارا نوجوان اس وقت سماجی برائیوں کا شکار ہوا ہے وہ اس بات کو محسوس ہی نہیں کر رہا کہ وہ کس طرح چند عارضی لذتوں اور خوش فہمیوں میں اپنی زندگی کے ایّام کو بے معنی و مقصد گزار رہا ہے،

ہمارا نوجوان اپنی تمام تر صلاحیتیں طاقت و شخصیت کے حصول کے لئے لگا رہا ہے طاقت اور شخصیت متوازن نہ ہوں تو ظلم و بربریت اور لاقانونیت عام ہوتی ہے جس کی وجہ سے سماجی خوف پیدا ہوتا ہے جو کہ معاشرے کے جمود میں اہم کردار ادا کرتا ہے ہمارا دین ہو یا سماج وہ طاقت اور شخصیت کو متوازن رکھنے کے لئے کچھ ضوابط مہیا کرتے ہیں جنہیں دینِ اسلام میں ظاہری کردار اور باطنی کردار کا نام دیا گیا اس لیے تصوف میں ظاہری کردار سے بڑھ کر باطنی کردار پر زور دیا گیا ہے – ظاہری کردار جیسے خوبصورت لباس، نفاست، وغیرہ، باطنی کردار میں تین چیزیں اہمیت رکھتی ہیں جیسے علم، اخلاق اور روحانیت اور بنیادی طور پر دیکھا جائے تو یہی تین عوامل انسانی طاقت اور شخصیت کو متوازن رکھتے ہیں جب اجتماعی سوچ و فکر متوازن ہوتے ہیں تو سماجی خوف اپنی موت آپ مرتی ہے –

ان اضطرابی کیفیات کو ختم کرنے اور متوازن سماج کی تشکیل کے لئے ہمیں اپنے اُن سماجی اور ذاتی فیصلوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی جن کی وجہ سے سماجی خوف جنم لے چکا ہے ہمیں اجتماعی طور پر ان کیفیات سے محفوظ رہنے کے لئے عملاََ میدان میں آنا ہوگا اور سینہ کشادہ رکھنا ہوگا ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی علم و اخلاق اور روحانیت کو تربیت اور بنیادی ضروریات میں شمار کرنے ہوں گے تب متوازن سماج کی تشکيل ممکن ہے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو،

اپنا تبصرہ بھیجیں