کورونا وائرس: ’وزیر اعلیٰ صاحب سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے مسائل حل کریں‘

پاکستان میں کورونا کی وبا کے بڑھتے ہوئے مریضوں اور ملک میں اس حوالے سے طبی عملے کے لیے حفاظتی لباس کی قلت کے باعث ملک کے بیشتر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو حفاظتی آلات کی قلت کا سامنا ہے۔
ملک کے چند ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد کوئٹہ میں ذاتی حفاظت کے سامان کی عدم فراہمی کے باعث ڈاکٹر تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔


جبکہ سوشل میڈیا پر ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ کس کس کو حفاظتی لباس پہننے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بدھ کی رات بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے ٹوئٹر پر عوامی رائے کو جانچنے کے لیے رائے شماری کے لیے ایک ٹویٹ شئیر کی جس میں انھوں نے عوام سے پوچھا کہ ’کیا آپ کے خیال میں ایسے ڈاکٹروں کو جو اس ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں کورونا سے متاثرہ ایک بھی مریض موجود نہیں ہے، ذاتی حفاظتی لباس پہننا چاہیے؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے اس پول کو شروع کرنا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین نے فوری اس پر ردعمل دینا شروع کر دیا۔ لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان بھی صارفین کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور اعتراضات کا جواب دیتے نظر آئے۔
بلال ڈار نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’او پی ڈی وہ جگہ ہے جہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں اس لیے ان ڈاکٹروں کا حفاظتی کِٹس کی اشد ضرورت ہے، جیسے آپ N95 ماسک پہن کر باہر نکالتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹرز اور طبی عملے کو بھی اس کی ضرورت ہے۔‘

https://twitter.com/bilaldarone9?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1247948169691967489&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Furdu%2Fpakistan-52225988


او پی ڈی وہ جگہ ہے جہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں اس لئے ان ڈاکٹروں کا حفاظتی کٹس کی اشد ضرورت ہے ، جیسے آپ N95 ماسک پہن کر باہر نکالتے ہیں ویسے ہی ڈاکٹرز پیرا میڈیکس کو بھی اس کی ضرورت ہے
یک اور صارف ڈاکٹر مستجاب خان نے جام کمال کی اس رائے شماری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ اس سوال کا جواب انھیں دینا چاہیے جو صحت کے ماہرین نہیں ہیں اور میرے خیال میں ذاتی حفاظت کا سامان طبی عملے کے ہر فرد کا حق ہے۔‘

جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ ذاتی حفاظت کا سامان موجود ہونا چاہیے لیکن ضرورت پڑنے پر ہی ڈاکٹر کو فراہم کیا جائے۔

سوشل میڈیا صارفین فرحان ورک نے ویڈیو بنا کر جبکہ ڈاکٹر گلزار نے ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اکثر افراد جن میں یہ وائرس پایا جاتا ہے ان میں اس کی علامات نہ ہوں۔

تو عین ممکن ہے کہ جب ایسا شخص کسی بھی ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں آئے تو اس سے یہ وائرس ڈاکٹر میں منتقل ہو جائے اور کیونکہ ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں موجود ڈاکٹر روزانہ سینکٹروں مریضوں کو دیکھتے ہیں اس لیے یہ وائرس ڈاکٹر سے کئی دیگر مریضوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

تاہم جام کمال کا کہنا ہے کہ اس صورت میں تمام مریضوں کو ماسک اور دستانے پہن کر ہسپتال کے شعبہ بیرونی مریضاں میں آنا چاہیے اور ڈاکٹر دو ماسک پہن کر ایسے مریضوں کو دیکھ سکتا ہے۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
ہاں ایک جانب سوشل میڈیا صارفین نے وزیر اعلیٰ بلوچستان پر تنقید کی وہیں چند صارفین نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے انھیں اس رائے شماری کو نہ کروانے کا مشورہ بھی دیا۔

تاہم ایک طرف جہاں بعض حکومتی عہدیدار ڈاکٹروں سمیت تمام عوام کو اس بات کی تلقین کر رہے ہیں کہ این 95 ماسک جیسے حفاظتی سامان صرف ان ماہرین صحت کے لیے ہیں جو کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال پر معمور ہیں۔
وہیں گذشتہ روز صدر مملکت عارف علوی کے دورہ لاہور کے دوران منظر عام پر آنے والی تصاویر میں صدر پاکستان عارف علوی کو این 95 ماسک پہنے لاہور میں ایک اجلاس کی سربراہی کرتے دیکھا جا سکتا ہے

اس سے قبل بھی چند سرکاری اہلکار اور سیاستدان این 95 ماسک پہنے دکھائی دیتے رہے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی جانب سے جاری ایک بیان میں حکومتی عہدیداروں، سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی جانب سے این 95 ماسک استعمال کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

پی ایم اے کے ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ ’یہ نہایت افسوس ناک ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ذاتی حفاظت کے سامان کی قلت ہے اور ہسپتال کے عملے کو بھی یہ میسر نہیں، سیاستدان اور سرکاری افسران یہ ماسک پہنے نظر آتے ہیں‘۔

تاہم پی ایم اے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں صدر مملکت عارف علوی کا نام لے کر ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں