ایف آئی آربلوچستان اسمبلی اور اسپیکر کی توہین ہے،ارکان اسمبلی گرفتاری کیلئے تیار ہیں، اپوزیشن کی پریس کانفرنس

کوئٹہ:بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے اسپیکر کے پارلیمانی رہنماؤں کی مشاورتی اجلاس سے بائیکاٹ کرتے ہوئے کہاہے کہ اسپیکر حکومت کے ساتھ مل کر اپوزیشن کو مسلسل دیوار سے لگاتی رہی،اپوزیشن نے اسمبلی قواعد وانضباط پرعملدرآمد کیلئے آواز بلند کی،اسمبلی پریمسز میں پولیس گھسی،ارکان کے خلاف ایف آئی آر بلوچستان اسمبلی اور اسپیکر کی توہین ہے،وزیراعلیٰ اور وزراء کاراستہ تو نہیں روکا گیا اگر رکاوٹ تھیں تو اسمبلی کیسے آئے؟اپوزیشن ارکان اسمبلی گرفتاری کیلئے تیار ہے فیصلہ سیاسی قیادت کرینگے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈرز ملک نصیر احمد شاہوانی، نصر اللہ زیرے، ارکان اسمبلی اختر حسین لانگو، اکبر مینگل، احمد نواز بلوچ، میر ذابد ریکی، میر حمل کلمتی، ثنا بلوچ، ٹائٹس جانسن و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک آدمی غریب تھا جس نے بکرا پال رکھا تھا پھر ڈاکو آئے اور ان کا بکرا لے گئے پھر واپس آئے اور ڈاکوؤں نے اس آدمی سے کہا کہ وہ ان کے لئے دعا کریں تاکہ ہم سلامتی سے پہنچے اور گوشت ہضم کرسکیں ہماری مثال بھی کچھ ایسی ہے،انہوں نے کہاکہ اسپیکر صاحب نے خود کی بجائے اہلکاروں کے ذریعے پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس کا پروانہ بھیجا ہے جس میں سیاسی جماعتوں بی اے پی، اے این پی، ایچ ڈی پی، پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا میپ، بی این پی کے پارلیمانی لیڈرز کو مشاورت کیلئے شرکت کرنا تھی۔ ہم نے مشاورت کی جس میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی کو خط لکھا ہے،خط میں کہاگیاہے کہ کل 19جون کو رات کو سیکرٹری بلوچستان اسمبلی کی طرف سے پیغام آیا کہ نے اسپیکر کی جانب سے 20جون سہ پہ تین بجے پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کا مشاورت اجلاس رکھاگیاہے جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے شرکت کرینگے متحدہ اپوزیشن نے اس سے قبل اسپیکر سے اسمبلی اجلاس میں استدعا کی تھی کہ وقواعد وانضباط کاربلوچستان اسمبلی سال 1974ء کے دفعہ 115الف پری بجٹ بحث کیلئے دن مختص کریں تاکہ میزانیہ پیش کرنے سے قبل پری بجٹ بحث میں اضلاع کے ترقیاتی اسکیمات زیر بحث آئیں لیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی اسمبلی کے قواعد وضوابط کے احترام نہ ہوا اس کے بعد 24مئی سے 3جون تک ہم مسلسل اسمبلی سیشن کے دوران اسمبلی قاعدوں پرعملدرآمد کامطالبہ کرتے رہے لیکن اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی گئی،اس کے بعد ہم نے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہوراحمدبلیدی سے کئی بار مطالبہ کیاکہ پری بجٹ پر بحث کیلئے اسپیکر سے مشاور ت کرکے ایام مقرر کیاجائے جس پر وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر ٹال دیاکہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کروں گا۔ہمم نے 15جون سے 18جون تک قانونی حق کیلئے جمہوری احتجاج کیا لیکن حکومت کو اپوزیشن کی مظلومیت کا احساس ہوا اور نہ ہی قانون پرعملدرآمد کی،انہوں نے کہاکہ پچھلے سال اسمبلی کے ملازمین نے اسمبلی میں تالہ بندی کی جس پر اسپیکر اور حکومتی نمائندوں ان سے مذاکرات کئے لیکن یہاں ارکان اسمبلی کو انسان کے برابر بھی نہیں سمجھاگیا،انہوں نے کہاکہ 18جون کو بجٹ اجلاس کے دوران بکتر بند گاڑی سے اراکین اسمبلی کو کچلنے کی کوشش کی گئی اپوزیشن کے اراکین اسمبلی عبدلواحد صدیقی،بابو رحیم مینگل، شکیلہ نوید دہوار زخمی ہوئے جس کے بعد نہ تو اسپیکر کو اس پرپشیمانی ہوئی اور نہ ہی حکومت کو بلکہ اسپیکر اور حکومت میں کسی نے زخمی ارکان کی تیماری کرنا بھی گوارا نہیں کیا،انہوں نے کہاکہ اس واقعہ کے خلاف اپوزیشن ممبران نے زخمی ممبران اسمبلی کو لیکر تھانہ گئے اور ایف آئی آر درج کرانے کی درخواست دی لیکن تین دن گزرنے کے باوجود اب تک ایف آئی آر درج ہنیں ہوسکی ہے البتہ وزیراعلیٰ جام کمال کے کہنے پر تمام اپوزیشن ارکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیاگیاہے۔اسپیکر تمام تر واقعات میں حکومت کے ساتھ مل کر اپوزیشن کو دیوار سے لگاتی رہی،انہوں نے کہاکہ ایسے حالات میں مشاورتی سیشن رکھنے کا کیا جواز بنتاہے،متحدہ اپوزیشن کو اہلکاروں کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی دعوت صرف اور صرف اپوزیشن ارکان اسمبلی کامذاق اڑاناہے جو انتہائی قابل افسوس امر ہے۔ایک تو ہمیں مارا پھر کہاکہ آجائیں اجلاس کو مل کر چلائیں۔صحافیوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسپیکر کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ آتے اور بات کرتے وہ ہاؤس کے کسٹوڈین ہے اسپیکر،، وزیر اعلی اور وزرا کو آجانا چاہیے تھا ملازمین نے آپ کو روکا آپ نے ان کے مطالبات تسلیم کئے تمام ارکان اسمبلی کی حیثیت برابر ہے لیکن یہاں تو ہمیں انسان کے برابر بھی نہیں سمجھا گیا بلکہ گاڑی سے کچلنے کی کوششیں کی گئی،انہوں نے کہاکہ اسمبلی پریمسز کے اندر اسپیکر کا دائرہ اختیار ہے یہاں کوئی پولیس اہلکار نہیں آسکتا بجٹ کے سینکڑوں پولیس اہلکار ارکان اسمبلی پر حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں تین ارکان اسمبلی زخمی ہوئے زخمی بھی ہم ہوئے اور وزیراعلیٰ کی بجائے ایف آئی آر بھی ہمارے خلاف درج کرلیا گیا ارکان اسمبلی کے خلاف ایف آئی آر صوبائی اسمبلی اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی توہین ہے۔ اسمبلی گیٹ تھوڑا گیا جام کمال اور نہ ہی ایس ایس پی آپریشن کے خلاف اسپیکر نے کوئی کارروائی ہوئی۔ ویڈیوز موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے حق کیلئے تمام تر قانونی راستے اختیار کریں گے۔ اپوزیشن پر الزام لگایاجاتاہے کہ ہم نے وزیراعلیٰ اور وزراء کاراستہ روکا ہے اگر راستہ روکا گیاہے تو پھر وہ اسمبلی میں کیسے آئے جس راستے سے جام کمال اور وزرا آئے انہیں توکسی نے نہیں روکا اپنی مرضی سے آئے وہ کہہ نہیں سکتے کہ راستہ روکا گیا۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے پرگرفتاری سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہاکہ ہمارے ارکان تو گرفتاری کیلئے تیار ہے تاہم اس سلسلے میں فیصلہ سیاسی قیادت کریگی پھر ارکان اسمبلی اور کارکن سب گرفتاری دیں گے،انہوں نے کہاکہ حکومت کی بادشاہی تو 25جون تک ہوگی پھر ہماری اسمبلی ہے ہم اجلاس ریکوزٹ کرینگے مسترد ہونے پر پھر ریکوزیٹ کرینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں