توہین حکومت نہیں توہین عدالت ہے اپریل 13, 2020اپریل 13, 2020 0 تبصرے بایزید خان خروٹیبلوچستان میں ریاست و حکومت میں جو فرق ہے اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹک ہے۔کیونکہ دنیا میں آج سے دو سو سال قبل یہ صورت حال موجود تھی جہاں صرف ”حکومت“ ہی کا وجود تھا، ”ریاست“ کا کوئی تصور نہ تھا۔ کوئی شخص حکومت کے خلاف کھڑا ہوا تو فورا اسے باغی قرار دے کر گردن اڑانے کا حکم جاری ہوا۔صدیوں بعد اہم تبدیلی جو سامنے آئی وہ یہ کہ ”ریاست“ ایک بالکل علیحدہ شے ہے اور حکومت صرف ریاست کے معاملات کو چلانے والا ایک انتظامی ادارہ ہے۔ ملک کے رہنے والے دستوری اور آئینی طور پر درحقیقت ”ریاست“ کے وفادار ہوتے ہیں، حکومت کے نہیں۔ اصل جس شے کو وفاداری کہا جاتا ہے وہ ”ریاست“ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔حکومت ریاست کا ایک انتظامی ادارہ ہے۔ بلوچستان میں سب کچھ ماضی جیسا ہے جہاں ریاست اور حکومت کی جدید اصطلاح پر عمل کرنے والے مشکلات میں ہیں ریاست کی جدید اصطلاح اور محمد علی جناح کے آفیسران سے خطاب کی روشنی میں کام کرنے والا ریاست کا وفادار سرکاری آفیسر بھی مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے وہ سوچ رہا ہے ریاست کی وفاداری نظام سے الگ تھلگ اور تنہا کھڑا کردیتی ہے ریاست کے مفاد کے فیصلے ان کے ذات کے بنا دیئے جاتے ہیں ا ور تمام تماشہ بین نظریں انکو گھیر لیتی ہیں اور ندامت کے عالم میں قائداعظم کے خطاب‘ ریاست کے وجود اور اپنی ریاست پرستانہ سوچ کو بے بسی کے عالم میں دیکھتا ہے۔ اور اس عمل نے ایک نئے ریاستی ملازمین کا دستہ جنم دیا ہے جس میں سیکرٹری سے لے کراسسٹنٹ کمشنر تک سب ریاست کے بجائے ریاست کے معاملات چلانے والوں کے ذاتی نوکر اور وفادار ہیں ان کا یقینکامل ہے کہ ریاست کے ساتھ ان کا رشتہ سفری شناخت کے دستاویزات تک ہے تاہم ان کا رشتہ ریاست سے انکی طرح دستاویزی رشتہ رکھنے والے لیکن معاملات چلانے والوں کے ساتھ خلوص کا ہے کیونکہ ان کومعلوم ہے کہ ان کا تبادلہ ریاست کے مفادات کی بجائے نظام پر قابض لوگ اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ تبادلوں کے آرڈرز میں درج ان جھوٹے الفاظ کا سہارا لینا کہ یہ تبادلہ عوام کے بہتر مفادات میں کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاستی قوانین کو بھی پامال کیا جارہا ہے اور حکومت بلوچستان نہ تو صوبے کی اعلی عدالیہ کے احکامات ماننے کو تیار ہے نہ ریاست کے مفادات کی امین ہے۔کچھ دن قبل صوبائی حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت 14 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کیا تھا جس کو بھی عدالت عالیہ میں بھی چیلنج کیا گیااور عدالت عالیہ نے تمام ڈپٹی کمشنر کے تبادلے منسوخ کرنے کا حکم دیا لیکن دو دن بعد ایک الگ آرڈر کے ذریعے بعض آفیسران کو توہین عدالت کرتے ہوئے دوبارہ اسی اضلاع میں تعینات کردیا گیا ہے جب قانونی شکنی کا یہ عالم ہو کہ معزز عدالت عالیہ کے احکامات توہین کی جائے وہاں عام آدمی کی شنوائی کا حکومتی سطح پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل ڈپٹی کمشنر چاغی کے غیرقانونی احکامات کے خلافپریس کانفرنس کرنے والی اسسٹنٹ کمشنر دالبندین عائشہ زہری کو ایک بااثر شخص کی ایماء تبدیل کردیا گیا اس تبادلے کے متعلق کمشنررخشان نے چیف سکریٹری بلوچستان کو خط لکھا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر دالبندین نے ان کے اور ڈپٹی کمشنر کے اطمینان کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دئیے۔ وہ سینئر حکام کی جانب سے تفویض کردہ احکامات کی بجا آوری میں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔ حتی کہ وہ نو دن تفتان میں رہ کر دن رات کام کرتی رہیں باوجودیہ کہ سب سب ڈویژن نہیں تھا۔وہاں ایک گروپ ہے جو ان کی بحیثیت اے سی دالبندین پوسٹنگ کے وقت سے ان کے خلاف سر گرم ہے۔ انہیں غلط فائدہ اٹھانے کے لئے خاتون ہونے کے باوجود باقاعدہ خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اس دباو کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ 25 جنوری 2020 کو انہوں نے ایک ریٹائرڈ رسالدار کو بدنام زمانہ پدگ جیک پوسٹ پر رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ کر مقدمہ نمبر 2/20 محررہ 26 جنوری 2020 قائم کیا۔یہ گرفتاری اس گروپ کے فوری غیض و غضب کا باعث بنی جو کھلم کھلا بلیک میلنگ پر اتر آیا۔ قومی اسمبلی (کی قائمہ کمیٹی) میں منشیات کے پکڑے جانے اور سابقہ ڈپٹی کمشنر کا مقدمہ درج کرنے سے انکار پر معاملہ زیر غور ہے۔ 24 فروری 2020 کو ہونے والی میٹنگ میں یہ حکم جاری کیا گیا کہ اے سی کے خلاف کسی تادیبی کاروائی سے گریز کیا جائے۔ مگر اس گروپ نے اے سی کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ گروپ مسلسل اسے پریشان کرتا رہا۔ اس کے لیویز گارڈز کو 31 مارچ کو مبینہ طور پر ڈی سی کے حکم پر تبدیل کر دیا گیا مگر بعد میں واضع ہوا کہ ڈی سی نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ گروپ نے اشتعال مین آ کر ان گارڈز کو ضلع واشک تبدیل کروا دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈی جی لیویز نے اے سی دالبندین کے لیویز سپاہی واپس لے کر انہیں ضلع واشک تبدیل کر دیا جبکہ اس تبادلہ کے لئے نہ ہی ایسی، نہ ڈی سی اور نہ ہی کمشنر نے کوئی درخواست کی تھی۔ یہ تبادلے سراسر سیاسی دباو پر صرف اے سی کو جھکانے کے لئے کئے گئے۔ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد کہ مستحق اور دیہاڑی دار مزدوروں میں راشن تقسیم کیا جائے اس گروپ نے اے سی کو یہ راشن مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے سیاسی کارکنوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس پر اے سی نے انکار کر دیا۔ یہ انکار گروپ نے اپنی توہین سمجھا اور اے سی کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اے سی نے حکومتی احکامات کی تعمیل کی اور اپنے آپ کو کسی گروپ کی بجائے سرکاری ملازم ثابت کیا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اے سی دالبندین کے تبادلہ کے احکامات منسوخ کئے جائیں۔ اب صوبائی درالحکومت میں موجود اعلیٰ آفیسر وزیر کی خودشنودی کیلئے تو اے سی دالبندین کو تبدیل کررہا ہے جبکہ اس آفیسر سے انتظامی کام لینے والے دونوں افیسران خوش ہیں۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اے سی دالبندین کا تبادلہ تومنسوخ نہیں ہوگا لیکن کمشنر رخشان کو خط لکھنے کی پاداش میں تبادلہ کی خبر ضرور ملے گی اس صورتحال میں ہر چالاک آفیسر سوچ رہا ہوگا کہ توہین عدالت یا توہین حکومت کی جائے؟کیونکہ اعلی آفیسران عدالت عالیہ میں زیر سماعت کیسز میں توہین حکومت نہیں توہین عدالت کررہے ہیں اعلیٰ آفیسر کے احکامات توہین حکومت نہیں توہین عدالت ہیں Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)