جرمنی، افغان مہاجرین کی سیاسی پناہوں کی درخواستوں کی منظوری میں اضافہ

جرمنی :وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے مطابق عدالتوں کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے میں افغان باشندوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت دینے کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی رکن اُولا ژیلپکے کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر وزارت داخلہ کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس جنوری تا مئی سیاسی پناہ کی مسترد درخواستوں پر نظرثانی کے لیے جرمن عدالتوں سے رجوع کرنے والے چار ہزار دو سو بارہ افغان باشندوں کو جرمنی میں تحفظ دینے کے حق میں فیصلہ سامنے آیا، جب کہ ایک ہزار نو دعووں کو رد کیا گیا۔

اس طرح افغان باشندوں کے لیے مسترد درخواستوں پر جرمن عدالتوں سے ریلیف کی شرح 76 فیصد بنتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مزید چوبیس سو اٹھارہ کیسز کو یورپی ریاستوں کے درمیان موجود ڈبلن ضوابط کے تحت حل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈبلن معاہدے کے مطابق یورپی یونین کی وہ ریاست کسی تارک وطن کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے، جہاں وہ شخص سب سے پہلے پہنچا ہو۔

تازہ معلومات یہ بتاتی ہیں کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے ایسے افغان درخواست گزار، جن کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا، ان کی جانب سے عدالت میں دائرکردہ اپیلوں کے حق میں فیصلوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ برس اسی عرصے میں یہ شرح قریب 55 فیصد تھی، جب کہ پورے سال میں یہ شرح ساٹھ فیصد تھی۔

وزارت داخلہ کے مطابق وہ افغان حکومت کی جانب سے افغان تارک وطن کی ملک بدریاں روکنے کی درخواست پر غور کر رہی ہے کیوں کہ افغانستان میں پرتشدد واقعات اور کورونا کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔38 مہاجرین کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جرمن شہر فرینکفرٹ سے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچایا گیا۔

تاہم اصولی طور پر طالبان کی پیش قدمی کے باوجود فی الحال جرمن حکومت سیاسی پناہ کے ناکام افغان درخواست گزاروں کی وطن واپسی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ بات اہم ہے کہ افغان تارکین وطن کی جرمنی بدری ایک نہایت متنازعہ عمل ہے۔ اس بابت جرمنی میں متعدد مرتبہ مظاہرے بھی دیکھے گئیں ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ افغانستان کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں اور ایک ایسے وقت میں جب طالبان عسکریت پسندوں کی پیش قدمی جاری ہے، تارکین وطن کو واپس ان کے ملک بھیجنا ایک خطرناک عمل ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ رواں برس مئی سے افغانستان سے غیرملکی فورسز کا انخلا جاری ہے اور اگست کے آخر تک یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ دوسری جانب طالبان نے اس عرصے میں خاصی پیش قدمی کی ہے اور کئی اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں