بلیک میلنگ

مسلمانوں کے دینی حلقہ میں ایک عجیب سوچ کارفرما ہے انکو یقین ہے کہ کرونا وائرس مسلمان امت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا القاعدہ کی افریقی برانچ نے ایک کارروائی کے بعد کہا ہے کہ کرونا نے دشمنوں کو کافی گمزور کیا ہے حالانکہ یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں مسلمان بھی کرونا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ایک خودساختہ اسکالر اورغزوہ ہند کے علمبردار زیدحامد کادعویٰ ہے کرونا مغربی طاقتوں کاکھڑاکردہ ہوا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں وہ لوگوں کو اکساتے ہیں کہ وہ کرونا کے خوف کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں اور مساجد میں باجماعت نمازوں پر پابندی کے حکومتی احکامات پرعملدرآمد نہ کریں وہ مکہ اور مدینہ کی بندش پر بھی سعودی حکمرانوں کو سخت تقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہ کرونا کویہودونصاریٰ کی ایک سازش مانتے ہیں ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ کرونا کافروں کو ہلاک کرے گا لیکن مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا اگرغور سے دیکھاجائے تو مجموعی طور پر پاکستان کے علماء اوردینی حلقہ بھی کرونا کی وبا کومسلمانوں کیلئے ہلاکت خیز نہیں سمجھتے دوسری طرف دنیابھر میں جدید طب کے ماہرین کیمیادان اور بیالوجسٹ یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ صدی کے اسپینش فلو اور طاعون کے بعد کرونا کی وبا نہایت تباہ کن قدرتی آفت ہے اور اس کا علاج موثر ویکسین کی دریافت کے بغیر ممکن نہیں ادھر اپنے وزیراعظم ابہام کا شکار ہیں وہ کبھی کہتے ہیں کہ کرونا سے بہت اموات ہوسکتی ہیں اور کبھی لاک ڈاؤن اور سختیوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ آج تک یہ واضح نہیں کرسکے کہ وہ آخرچاہتے کیا ہیں غالباً انکو فکر لاحق ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت زیرو سے نیچے چلی گئی تو کیا ہوگا انکی خواہش ہے کہ کرونا کے باوجود معیشت کاپہیہ چلتا رہے ورنہ کئی کروڑ لوگ بیروزگار ہوجائیں گے جس کے بعد بے چینی اوربغاوت کی کیفیت پیداہوجائے گی بالکل اسی طرح صدرامریکہ ڈونلڈٹرمپ بھی سراسیمگی کا شکار ہیں انہوں نے گزشتہ روزفرمایا کہ ریاستیں کون ہوتی ہیں؟ملک کااصل اختیار انکے پاس ہے لیکن شدید بحرانی کیفیت میں امریکی ریاستوں کے گورنر صدر سے پوچھے بغیر اقدامات کررہے ہیں ٹرمپ نے جس امداد کااعلان کیا ہے وہ ابھی تک ریاستوں کوملی نہیں ہے اور پہلی بار امریکہ کا خزانہ بھی 2کھرب ڈالر نکالنے کامتحمل نہیں ہورہا اسی طرح عمران خان نے جس 8ارب ڈالر کا اعلان کیا ہے وہ کسی کو ملے گا نہیں کیونکہ وفاقی حکومت امداد اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرنا چاہتی ہے جبکہ اتنی بڑی تقسیم کیلئے اسکے پاس مشینری اور مطلوبہ صلاحیت نہیں ہے کم ازکم وہ مخالف صوبہ سندھ کوتقسیم کیلئے کوئی امداد دینے کے حق میں نہیں کیونکہ انکے کراچی کے نمائندے سندھ حکومت پر تواتر کے ساتھ کرپشن کاالزام لگارہے ہیں حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی راشن کی خرید اور تقسیم کاریکارڈ طلب کرلیا ہے نہ8ارب ڈالر خزانہ سے نکالے جاسکتے ہیں اور نہ ہی اتنی بڑی امداد لوگوں میں تقسیم ہوگی البتہ تباہی کابہانہ کرکے ملک کے ارب پتی ساہوکار بلڈرمافیا اور سیٹھ صاحبان سبسڈی کے نام پر مزید رعایات اورانعامات حاصل کریں گے یہ جو طبقہ ہے یہ بڑے بڑے لٹیروں پرمشتمل ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملیر کی زمینوں کیلئے سپریم کورٹ نے 460ارب روپے کی جو قیمت رکھی تھی بحریہ ٹاؤن کے سیٹھ ریاض وہ رقم دینے سے انکاری ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں اقساط کی ادائیگی سے مستثنیٰ قراردیاجائے ان کا بہانہ ہے کہ کرونا کے بعدانکے پلاٹ فروخت نہیں ہورہے اس لئے ان کا ہاتھ تنگ ہوگیا ہے حالانکہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ انکے اندرون وبیرون اکاؤنٹس میں کتنے ارب ڈالر جمع ہیں وہ اپنا ذاتی جہاز بیچ کر بھی ایک قسط ادا کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں نے لوگوں کولوٹنا ہے لیکن اپنی جیبوں سے ایک آنہ بھی نہیں نکالنا اسی صورتحال سے نہ صرف ملک کے لوگ مایوس ہیں بلکہ اس اتنہائی ناگہانی آفت کے دوران بھی وزیراعظم کی طرف سے امداد کیلئے دامن پھیلانا عالمی جگ ہنسائی کے باعث ہے وزیراعظم کے معتقدین اتنے سادہ ہیں کہ ایک نے وزیراعظم کے رونے کی تصویر وائرل کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم کرونا کی صورتحال کی وجہ سے رورہے ہیں یعنی انہیں اپنے ملک اور عوام کی اتنی فکر ہے انہیں ضرور فکر ہوگی اورہونی بھی چاہئے کیونکہ ملک کی ذمہ داری ان پر ہے وہ سیاہ وسفید کے مالک ہیں لیکن ایسے نازک موقع پر انہیں رونے کی بجائے مضبوط اعصاب بلندحوصلہ اوراستقامت کے ساتھ صورتحال کامردوں کی طرح مقابلہ کرناچاہئے اگرتحریک انصاف کے دوستوں کو اس موقع پر سیاسی برتری اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ درکار ہے تو یہ کوئی صحتمند رویہ نہیں ہے کیونکہ ابھی تو کرونا کی تباہ کاریوں کی شروعات ہے حکومت چھپارہی ہے لیکن ہزاروں لوگ وبا کی لپیٹ میں آگئے ہیں صرف یہ شکر ہے کہ اموات کی تعداد کم ہے لیکن جس طرح کی بے اعتدالی سے کام لیاجارہا ہے اس طریقے سے اس وبا کا طویل عرصہ تک خاتمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عوام نے بھی لاک ڈاؤن کو مذاق سمجھ رکھا ہے حتیٰ کہ بڑے بڑے جیدعلماء،مشائخ مبلغ اور خطیب بھی لاک ڈاؤن کی مخالفت کررہے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں یہ عمل ناکام ہوگیا ہے ایسی آفت میں جبکہ رمضان المبارک بھی سر پرہے علماء کبھی نہیں مانیں گے کہ باجماعت نمازوں اورتراویح پر پابندی ہو۔اگر نمازی مساجد کا رخ نہیں کریں گے تو پیش امام صاحبان کا کیا بنے گا اور ان کا گزارہ کس طرح چلے گا کسی بھی حکومت نے آج تک مذہبی عبادت گاہوں کی امداد نہیں کی ہے جو کہ افسوسناک بات ہے اب جبکہ وزیراعظم کے حکم پر کنسٹرکشن انڈسٹری کھول دی گئی ہے ہیرکٹنگ اورڈرائی کلینرزکی دکانیں ریتی بجری اور ہارڈویئر کاکاروبار کھول دیا گیا ہے تو کاہے کالاک ڈاؤن یہ تو آدھاتیتر آدھا بیٹروالاکام ہوگیا جیسے کہ ہم نے پہلے ہی کہا ہے ہمارے جیسے ملکوں میں انسانی جانوں کی پہلے کب وقعت تھی جو اب یا آئندہ ہوگی وزیراعظم کایہ کہنا کہ لوگ کرونا سے زیادہ بھوک سے مریں گے اسکی لاج رکھتے ہوئے ناکام لاک ڈاؤن ختم کردینا چاہئے اور کاروباری زندگی مکمل طور پر کھول دینا چاہئے تاکہ لوگ کم از کم بھوک سے تونہ مریں۔
ایک بری خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ابتدائی طور پر کرونا پیکیج دینے کا جو اعلان کیا تھا وہ اس سے مکر گیا ہے کیونکہ جن28ممالک کو امداد دینے کااعلان کیا گیا ہے ان میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے اس امداد کے حصول کیلئے حفیظ شیخ کو ایڑھی چوٹی کازورلگانا پڑے گا یا نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔غالباً آئی ایم ایف نے ان ممالک کی امداد روکی ہے جو قرضوں میں ریلیف کا مطالبہ کررہے ہیں وزیراعظم نے یہ مطالبہ کرکے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں سے داد سمیٹی تھی اب اسکے لینے کے دینے پڑرہے ہیں کیونکہ اگر آئی ایم ایف نے ایک ارب40کروڑ کا پیکیج نہیں دیا تو پاکستان کی ادائیگیوں کاتوازن بگڑجائیگا معاشی تنزلی اور کساد بازاری توقع سے بڑھ کر ہوگی۔
کرونا کے تو ویسے بے شمار نتائج برآمد ہونگے لیکن اس نازک صورتحال کا فائدہ اٹھاکر حکومت بلوچستان کے وزراء نے وزیراعلیٰ کوبلیک میلنگ کابہت ہی اچھوتا انداز اختیار کیا ہے وزیراعلیٰ شکر کریں کہ عدالت عالیہ کے فیصلہ سے مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے لیکن وزراء کا معاملہ باقی ہے انکے مطالبات میں زیادہ فنڈز کااجراء حلقوں میں انکی مرضی کے افسران کا تقرر،ٹرانسفر اورپوسٹنگ میں انکی مرضی شامل ہے وزراء کی بلیک میلنگ سے یہ تاثر قائم ہورہا ہے کہ حکام بالا کی مرضی کے بغیر وزراء کیسے پرزے نکال رہے ہیں اور انہیں وقت اورحالات کی نزاکت کی پروا نہیں ہے۔ایسے وقت میں کہ کرونا آفت بن کر ٹوٹ پڑا یہ لوگ اپنے عوام کی خدمت بہترطبی سہولتوں کی فراہمی دیہاڑی دار مزدوروں کی فکر کی بجائے اپنا اُلوسیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں انہیں خوف خدا اور فکر عوام بھی نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کارویہ درست نہ ہو اور وہ ہاتھ کے کھلے بھی نہ ہوں لیکن یہ موقع انہیں سیدھا کرنے یاعہدہ سے ہٹانے کا نہیں ہے وزراء اور ایم پی اے مناسب وقت کا انتظار کریں اگر جام صاحب موجودہ نازک صورتحال سے نمٹنے میں عہدہ برا نہ ہوسکے تو عہدے پر براجمان ہونے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔
جام صاحب کوبھی مشورہ ہے کہ وہ اپنا طور طریقہ اور طرز عمل میں تبدیلی لائیں کیونکہ وہ پورے صوبہ کے سربراہ ہیں وہ عوام سے براہ راست ملاقتوں کا سلسلہ بھی شروع کریں جیسے کہ انکے دادا کرتے تھے وہ سوشل میڈیا سے باہر نکل کر کبھی کبھار حقیقی دنیا کا جائزہ بھی لیں کیونکہ زمینی حقائق کاادراک کئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں