بلوچستان کو کورونا سے کوئی خطرہ نہیں؟


انگریزی زبان کی مشہور کہاوت ہے ”نیم علم بہت ہی خطرناک چیز ہوتی ہے“ اس سے ملتی جلتی اردو کی بھی ایک مشہور کہاورت ہے کہ ”نیم حکیم خطرہ جان“ ان کہاوتوں کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ نیم عالم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان کے پاس علم نہ ہی ہو۔ نیم پڑھا لکھا انسان مٹھی بھر علم کی وجہ سے نرگسیت کا شکار ہو جاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار بھی۔ان کہاوتوں کی اچھی مثال پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان ہیں۔موصوف متعدد دفعہ اپنی سیاسی،تاریخی اور جغرافیائی معلومات سے ملکی اور عالمی سطح پر لوگوں کو حیران کر چکے ہیں جاپان اور جرمنی جن کے سرحدوں پر لگ بھگ 9021کلو میٹر کا فاصلہ ہے موصوف نے ایک دفعہ اپنی تقریر میں دونوں ممالک کا بارڈر ملا دیا تھا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ دونوں ممالک دوسری عالمی جنگ کے وقت دشمن ممالک تھے حالانکہ یہ دونوں ایک ہی بلاک کا حصہ تھے۔طیب اردگان کے پاکستان آمد کے موقع پر ان کو خوش کرنے کیلئے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس خطے (برصغیر) میں ترکوں نے600 سال تک حکومت کی ہے۔ مرغیوں اور کٹوں کی تجارت سے 22کروڑ عوام کی معیشت بھی مضبوط کرنے کے مشورے دے چکے ہیں۔لیکن اپنی لا علمیوں اور میڈیا ٹرائل کے باوجود ان کی خود اعتمادی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جس کی اہم وجہ شاید ان کی جماعت کے نابالغ سیاسی کارکنان ہوں گے جو ان کی ہر بات پر تالیاں بجاتے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو اپنے دادا کے متعلق لکھتی ہیں ”ذوالفقار علی بھٹو کوئی ولی نہیں تھے لیکن یہاں کے لوگوں کی فطرت ہے کہ یہ انسانوں کو ولی کا درجہ دے دیتے ہیں“ اس میں کوئی شک نہیں ذوالفقار علی بھٹو ایک سویلین آمر تھے جو ہر مسئلے کے حل کیلئے طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے۔لیکن اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان میں منتخب ہونے والے تمام وزراء اعظم میں ذوالفقار علی بھٹو سب سے زیادہ صلاحیت یافتہ تھے۔عمران خان کی نسبت وہ ملکی اورعالمی سیاست کے معاملات پر مضبوط گرفت رکھتے تھے اور ان کا سیاسی تجربہ اور لیڈر شپ کی صلاحیتیں بھی خان صاحب سے کہیں زیادہ تھیں۔ لیکن بھٹو جیسے ذہین انسان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب ان کے سیاسی کارکنوں نے ان کو ولی کا درجہ دیا جس کے بعد وہ نرگسیت اور زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے ان سے بہت سی سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ جب بھٹو جیسے لیڈر کا دماغ غیر ضروری تعریفوں کی وجہ سے پھر سکتا ہے تواس میں کسی تعجب کی بات نہیں کہ اپنے کارکنوں سے ولی کا درجہ ملنے پر عمران خان جیسے نیم پڑھے لکھے انسان کا دماغ کیسے نہیں پھرے گا۔
موصوف نے کچھ عرصہ قبل درالحکومت کوئٹہ کا دورہ کیا تھا اور کرونا کے متعلق تین منٹ کی مختصرپریس کانفرنس بھی کی تھی اور بناء کسی تعجب کے ماضی کے وفاقی حکمرانوں کی طرح انہوں نے بلوچستان سے متعلق اپنی کم علمی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان کو کورونا وائرس سے کم خطرہ ہے کیونکہ دوسرے صوبوں کی نسبت یہاں آبادی کم ہے اور اکثر آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ شاید وزیراعظم کی بات کو حکومت بلوچستان بالخصوص لیاقت شاہوانی نے بھی تحریک انصاف کے کارکنان کی طرح کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا ہوگا اور خوش فہمی کا شکار ہو گئے ہوں گے کہ خان صاحب کی بات کی طرح بلوچستان کو کورونا سے کوئی خاص خطرہ نہیں۔غالباً وزیراعظم اور صوبائی حکومت اس وقت یہ بات بھول چکے ہونگے کہ کورونا پاکستان میں بلوچستان کے ذریعے منتقل ہوا جب عمران خان کے قابل وزیر زلفی بخاری نے تفتان بارڈر کھول کر بڑی تعداد میں زائرین کو بلوچستان آنے دیا تھا ور نام نہاد قرنطینہ بنا کر وباء کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم کو شاید اس بات کا بھی علم نہیں کہ بلوچستان کا 959کلو میٹر کا بارڈر بھی ایران سے ملتا ہے اور کورونا وائرس کی آمد کی ابتدائی دنوں میں چین کے بعد ایران کا اس وباء کا دوسرا سب سے بڑا اہم مرکز تھا۔اب بھی بڑے پیمانے پر ایران میں اس وباء کے باعث بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہورہی ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان (مغربی بلوچستان) میں لوگ بڑی تعداد میں اس وباء سے متاثر ہیں اور وہاں سے لوگ بڑی تعداد میں مشرقی بلوچستان آمد ورفت کر رہے ہیں کیا ایران کابلوچستان سے منسلک طویل بارڈراور وہاں سے لوگوں کی آمدورفت کے باوجود بھی بلوچستان کو کورونا وائرس سے کوئی خطرہ نہیں؟
وزیراعظم کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ بلوچستان کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے یہ بات بھی زمینی حقائق کے برعکس ہے۔کوئٹہ کے جنوب میں واقع مستونگ‘ قلات‘ خضدار‘ بیلہ اور حب چوکی اب دیہی علاقے نہیں رہے اور ان کی آبادی میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے پچھلے مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی سوا کروڑ ہے جو متعدد یورپی ریاستوں مثلاً ہالینڈ‘ آسٹریلیا‘ ہنگری‘ پورتگال وغیرہ سے زیادہ ہے اور یہ تمام تر ممالک کرونا کی لپیٹ میں ہے وزیراعظم کو اگر بلوچستان کا علم نہیں تو سب سے زیادہ آمدنی پیدا کرنے والے صوبے سندھ کا تو علم ہونا چاہئے کہ آبادی کے تناسب سے سندھ سب سے متاثرہ صوبہ ہے۔ شاید وزیراعظم کو بلوچستان کے جغرافیہ کے بارے میں بھی علم نہیں ہوگا کہ نصیر آباد ڈویژن جو عمران خان کے تصوراتی قلیل آبادی اور صحرا والے بلوچستان کے برعکس بڑی آبادی کا بڑا مرکز ہے۔اس ڈویژن کی طویل سرحدیں بالائی سندھ سے ملتی ہیں اور سرحدوں کے دونوں اطراف سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے حکومت بلوچستان کی عمران خان کے تقریر کے حوالے سے خوش فہمی شاید اب دور ہو چکی ہو کیونکہ نصیر آباد ڈویژن سے 10نئے کیسز آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کا سب سے بڑا گنجان آبادی والا شہر کراچی کا بھی بارڈر بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے ملتا ہے اور عمران خان کی طرح کوئی لاعلم شخص اگر کراچی سے حب چوکی کا سفر کرے تو اسے شاید یہ معلوم بھی نہ ہو کہ کراچی کوئی اور شہر ہے اور حب چوکی کوئی اور۔ دونوں شہر آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے جڑھ چکے ہیں اوراسلام آباد و راولپنڈی کی طرح جڑواں شہر کہلائے جا سکتے ہیں۔ کراچی اس وقت کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے متاثرہ شہر ہے کیا اس کا بارڈر بلوچستان سے ملنے کے باوجودبھی بلوچستان کوکورونا وائرس سے کوئی خطرہ نہیں؟
عمران خان کو غالباً اس بات کا بھی علم نہیں ہو گا کہ کوئٹہ میں محدود ٹیسٹنگ کٹس کے علاوہ بلوچستان کے 33 اضلاع میں ٹیسٹنگ کٹس بھی موجود نہیں۔لہذا لیاقت شاہوانی کے اعداد و شمار زیادہ تر کوئٹہ تک محدود ہیں اس لئے ان اعداد و شمار کو سنجیدگی سے لینا جس کی بناء پروزیراعظم کو لگتا ہے کہ کیسز کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان دوسرے صوبوں سے کم متاثرہ ہے یہ عمران خان کی کم علمی کو ظاہر کرتا ہے۔البتہ عمران خان کی جانب سے لیاقت شاہوانی کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا اور عمران خان کی باتوں کو حکومت بلوچستان طرف سے سنجیدگی سے لینا کا خمیازہ بلوچستان کے عوام کو ادا کرنا پڑے گا۔
عمران خان کے دورہ کے ایک ہفتے بعد ہی صوبہ میں کیسز کی تعداد میں غیر معمولی طور پراضافہ ہوتا جا رہا ہے گزشتہ روز ہی مستونگ کے ایک ہی خاندان کے 10افراد کی متاثر ہونے کی خبر آئی اور خاران سے تبلیغی جماعت کے دوارکان میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے۔ زمینی حقائق سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر کوئی معجزہ نہیں تو کوئٹہ اور بلوچستان میں کیسز کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت اور وزیراعظم بلوچستان کی صورتحال سے لاعلم ہی رہیں گے، ٹھیک اسی طرح جس طرح ماضی کی وفاقی حکومتیں لاعلم رہا کرتی تھیں۔وفاق کی لا علمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر عارف علوی جب بلوچستان آئے تو تقریر کرتے وقت وزیراعلیٰ بلوچستان جمال خان عالیانی‘ گورنر امان اللہ یوسفزئی اور کمانڈر سدرن کمانڈ سردار یار محمد رند کا شکریہ ادا کیا تھا تاریخ اور زمینی حقائق تو یہی آثار دے رہے ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان کو کورونا کی سب سے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی گی کیونکہ یہ صوبہ مکمل طور پر لاوارث ہے۔ سن1997 میں اس وباء سے کافی کم نوعیت کی آفت بلوچستان کی ساحلی پٹی پر طوفان کی صورت میں آئی تھی اور اس وقت بھی وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی کوئی مدد نہیں کی تھی جس کی وجہ سے بلوچستان کو کافی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت کے اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اس وقت طوفان صرف ساحلی پٹی تک محدود تھا۔ اس طوفان کی نسبت یہ وباء100 گنا زیادہ خطرناک ہے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ عالمی طاقت امریکہ اور یورپ بھی اس کے آگے بے بس ہیں۔لہذا بلوچستان کا کیا حشر ہوگا اگر یہ وباء یہاں شدت اختیار کر لیتی ہے یہ ناقابل بیان ہے۔1997ء میں بلوچستان میں سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں صوبائی حکومت موجودہ جام صاحبت کی حکومت سے کافی مضبوط تھی اور وفاق سے اگربات منوا نہیں سکتی تھی تو کم از کم بات کر تو سکتی تھی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل سیاسی حوالے سے بھی جام کمال سے کافی طاقتور تھے اور ان کی جماعت بھی کافی مضبوط تھی۔جام کمال کی جماعت الیکشن سے کچھ دن قبل ہی بنی تھی جس میں تمام وہی لوگ شامل ہے جو کہیں جماعتیں بدل چکے ہیں اور بلوچستان سے زیادہ اسلام آباد کے نمائندے لگتے ہیں۔ جام کمال کی کمزور صورتحال کو دیکھ کر کچھ وزراء نے تو چند دن قبل ہی کھلے الفاظ میں استعفوں کی دھمکیاں دی تھیں۔ بہر حال جب سردار اختر مینگل1997ء میں وفاقی حکومت کے سامنے بے بس تھے تو جام کمال سے توقع رکھنا سمجھداری نہیں ہوگی۔اس وقت اگر وفاقی حکومت چاہئے بھی تو بلوچستان کے لوگوں کی اس وباء سے حفاظت نہیں کر سکتی بس یہاں کے لوگ اگر کسی معجزے کا انتظار کریں تو ان کیلئے بہتر ہوگا یا پھر بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرح عمران خان کی بلوچستان سے متعلق باتوں کو سنجیدگی سے لے کر کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کریں تواس سے شایدعوام کی تشویش میں کمی آئے جس طرح خان صاحب کی باتیں سن کر صوبائی حکومت کی تشویش میں کمی آئی تھی۔
Load/Hide Comments