انسانی حقوق کی پامالیاں بمقابلہ انسانی حقوق کی تنظیمیں

تحریر: منّان صمد بلوچ
تشویشناک امر یہ ہے کہ دنیا بربریت و سفاکیت کا ایک بھیانک رُوپ اختیار کرتا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا بازار سرگرم ہورہا ہے۔ آئے روز ظلم و جور کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ نت نئے خونریزی و غارتگری کے نغمے پھوٹ رہے ہیں۔ دنیا کے چپے چپے میں عام فرد استعماریت کی چکی میں پس رہا ہے۔ شادمانی کی فضائیں ہولناک حد تک آلودہ ہوچکی ہیں۔ صبح کی خنک ہوائیں خون کے رنگ و بُو کا امتزاج بن چکی ہیں۔ ایک طرف پرندے کھلے آسمان اُڑان بھر کر امن و آشتی کے گیت گا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انسان زمین کی دہکتی آگ میں جل جل کر جی رہا ہے۔
ستم ظریفی کی سخن یہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیاں انسانی حقوق کی تنظیموں پر غالب آچکی ہیں۔ بےبسی کے مارے اقوام متحدہ سمیت دیگر انٹرنیشنل آرگنائزیشنز استعماری قوتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہیں۔ سب نے چھپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ سارے عالمی ادارے مجرمانہ خاموشی کے چھتری تلے غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے آگے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ شیطانیت نے انسانیت کو اپنے شکنجے سے جکڑ لیا ہے۔ قاضی اور جابر ایک ہی ڈگر پر چلنے لگے ہیں۔ ظلم اور انصاف ایک ہی پیج نظر آرہے ہیں۔ دنیا کے نگر نگر میں جنگ و جدل، قتل و غارت، ظلم و ستم، بربریت و ناانصافی اور استحصال و نابرابری کا راج ہے اور "ہار” محض "انسانی حقوق کی تنظیموں” کا ہے۔
دنیا میں بیک وقت مختلف انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کررہی ہیں جس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس، تنظیم برائے بین الاقوامی عفو عام اور دیگر سینکڑوں انسانی حقوق کی تنظیمیں متحرک ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر بلاناغانہ انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود تمام تر عالمی تنظیمیں عملی طور پر انسانیت سوز واقعات کو مسدود کرنے سے بُری طرح ناکام ہیں۔ اِنہی تنظیموں کی جانب سے کئی چارٹر آف ہیومن رائٹس پیش کیے گئے ہیں، انسانی حقوق کے حوالے سے متعدد دستاویز بنائی گئی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر قراردادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن اِن پر عملی اقدامات اٹھانے کے بلند و بانگ دعوے سراسر سراب پر مبنی ہیں اور سب کے سب ردی کی ٹوکری کی نذر ہونے کے مستحق ہیں۔
اگر صداقت کا آئینہ تھام کر نظر دوڑایا جائے تو کیا کرہ ارض پر بسنے والے سارے انسانوں کو رنگ، نسل، ذات، مذہب، جنس، زبان، ثقافت، سماجی مقام، مالی حیثیت اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر تمام تر انسانی حقوق میسر ہیں؟ کیا ہر فرد کو اظہارِ رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زیست بسر کرسکے؟ کیا ہر شخص خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، ذات اور مذہب سے ہو وہ تعظیم و تکریم کے ساتھ جی رہا ہے؟ کیا زمین پر انسان انصاف، محبت، امن، خوشحالی اور مساوات کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے؟ کیا ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیا گیا ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ نے پیرس میں عالمی منشور برائے انسانی حقوق (یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس) کی منظوری کا عظیم الشان کارنامہ تو سرانجام دیا تھا لیکن تیس شقوں پر مشتمل اقوام متحدہ کی اس عالمی قرارداد کو عملی جامہ کون پہنائے گا؟ کیا اِن تمام شقوں میں نوشت کیے گئے بنیادی انسانی حقوق پر عملدرآمد کی یقینی محض ہر سال انسانی حقوق کا عالمی دن منانے سے ممکن ہوگی؟ کیا انسانی حقوق کے حوالے پروگرامز اور کانفرنسز منعقد کرکے فقط لیکچرز دینے سے انسانی حقوق کی پاسداری کی جاسکے گی؟ کیا صرف اجلاس بُلا کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بحث و تمحیص سے انسانی حقوق کی تحفظ سہل ہے؟ اب وقت آن پہنچا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو اپنے دوغلی پالیسیوں اور منافقانہ رویوں کو ترک کرکے کرہ ارض پر انسانی حقوق کی برملا روگردانی کرنے والے تمام ممالک کو جوابدہی کے کٹہرے میں لانا ہوگا اور انسانیت کی پھول کو مرجھانے سے بچانے کیلئے عملی و حقیقی معنوں میں ہنگامی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔