کیا اب ہم مریخ کو اپنا ہاسٹل بنائیں؟

تحریر: منّان صمد بلوچ
حقِ نعرہ بازی، آہِ سوزاں، حیف و واویلہ، احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور مزاحمت اسٹوڈنس طبقے کے ناگزیر حصے بنتے جارہے ہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ طالب علموں کو شعوری، فکری اور تخیلی دھارے سے کنارہ کش کرکے ناکردہ اُلجھنوں میں اُلجھایا جارہا ہے۔ ایک منظم تدبیر کے دائرے میں طالب علموں کا سڑکوں پر نکلنا اور دھرنوں میں بیٹھنا ایک معمول بنایا جارہا ہے۔ ایک سوچی سمجھی منصوبے کے تحت طالب علموں کے ہاتھوں سے قلم و کتاب سلب کرکے پلے کارڈز و پوسٹرز تھمایا جارہا ہے۔ ایک اُوچھے ہتھکنڑے کے چھتری تلے تعلیمی اداروں میں پُراسرار نوعیت کے واقعات وضع کرکے علمی فضا کو ملیامیٹ کیا جارہا ہے۔
اِک ایسا ہی پُراسراریت کی سوانگ میں ایک صریح واقعہ جامعہِ بلوچستان میں پیش آتا ہے جس میں یکم نومبر کو ہاسٹل سے مطالعہِ پاکستان کے دو ہونہار طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو مبینہ طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ سترہ دنوں سے کوئٹہ کی ٹھٹرتی سردی میں اپنے ساتھی طالب علموں کی بازیابی کیلئے طلباء و طالبات جامعہِ بلوچستان کے مین گیٹ پر دھرنا دے رہے ہیں۔ حکومتی کمیٹی کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک لاپتہ طالب علموں کا کھوج نہیں لگایا جاسکا۔
جب طلبہ نے انتظامیہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کی درخواست کی تو انتظامیہ اِس معاملے کو رفع دفع کرنے کیلئے حیلہ اور بہانہ سازی سے کام لے رہی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے ایک عجیب و غریب بیان سامنے آجاتی ہے کہ طالب علموں کی جبری گمشدگی کے دوران جامعہِ بلوچستان میں بجلی نہیں تھی اور سی سی ٹی وی کمیرے بند پڑے تھے۔ کیا یہ ایک اتفاقیہ ہے یا سفید جھوٹ ہے؟ مؤخر الزکر کا پھلڑا بھاری ہے۔
لیکن شرم و لاج سے عاری انتظامیہ کیا ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہے کہ جب جامعے کے احاطے میں فی میل اسٹوڈنس کو بلیک میل کرکے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اُس وقت بجلی کیوں نہیں چلی جاتی ہے اور نصب کیے گئے خفیہ کیمرے بند کیوں نہیں ہوتے ہیں؟ موثر اور متحرک سیکورٹی نفاذ کے باوجود طالب علموں کا ہاسٹل سے لاپتہ ہوجانا، کیا یہ ایک سوالیہ نشان نہیں ہے؟ اگر ہاسٹلز میں بھی اسٹوڈنس کی تحفظ یقینی نہیں ہے تو قیام کرنے کیلئے محفوظ اور متبادل جگہ اور کیا ہے؟ کیا اب ہم مریخ کو اپنا ہاسٹل بنائیں؟
لیکن کوئی برملا اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہے کہ مریخ میں طالب علموں کو جبری گمشدگی کا نشانہ نہیں بنایا جائیگا۔ مریخ میں مستقبل کے ہونہار چڑیوں کو پنجرے میں قید نہیں کیا جائیگا۔ علم کے چراغوں کو گُل نہیں کیا جائیگا۔ فکر کے دیپ کو بُجھایا نہ جائیگا۔ ہاتھ سے قلم کو چھین کر پاش پاش نہیں کیا جائیگا۔ ہاتھ سے کتاب کو سلب کرکے ذہن پر قفل نہیں لگایا جائیگا۔ قیام چاہے زمین پر ہو یا مریخ پر لیکن ایک ایک کرکے سب بس تصویر بن جائیں گے، صرف پلے کارڈز اور پوسٹرز میں نظر آئیں گے، محض واویلوں اور نعروں میں سنائی دیں گے، فقط مظاہروں اور دھرنوں میں ماتم کناں ہوں گے۔
اس سُخن میں کوئی دو رائے نہیں کہ محفوظ سکونت گاہ کی ضامن مزاحمت کی ڈگر میں پوشیدہ ہے۔ مزاحمت کا راستہ ضرور کٹھن ہے لیکن لازوال کوششوں اور لگاتار جہدوجہد سے ہی یہ ‘کھردرا’ راستہ ہموار ہوسکتی ہے۔ جبر کی شکست و ریخت میں سیسہ پلائی دیوار جیسے حوصلے اور عزائم پہناں ہیں۔ اِن طویل دھرنوں میں ایک درخشاں مستقبل پوشیدہ ہے۔ ظلم کی رات میں ایک تابناک صبح مخفی ہے۔ حقِ آواز بلند کرنے سے علم کی شعاعیں بلند ہوں گی۔ نتیجتاً علم کی شمع کے سائے تلے ظلم کی ٹہنی کبھی نہیں پھلتی۔