ناچ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا


حکومت بلوچستان نے تمام تراعلانات کے باوجود تفتان بارڈر کھول دیا اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ چین میں کرونا کی وجہ سے موت کا رقص جاری ہے لیکن حکومت پاکستان نے آنے جانے والی پروزوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی کیونکہ چین نے اسکی درخواست کی تھی حالانکہ ساری دنیا نے چین سے وقتی طور پر تعلقات منقطع کردیئے ہیں اسکو کہتے ہیں دوستی اور یہ دوستی رفتہ رفتہ آقا اور غلام کے تعلقات میں بدل رہی ہے۔ادھر ایران اور افغان بارڈر سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے حکومت نے اپنی ناقص پالیسی کی وجہ سے کرونا کو اپنے ہاں داخل ہونے کی دعوت دی ہے اب اسکی مرضی کہ وہ تیزی سے آئے یا ٹھہرکرآئے۔
خوف کے اس ماحول میں آج ایک خاص طبقہ رقصان ہوگا اور ہر طرف
ناچ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا
کہ صدائیں سنائی دیں گی بے رحمی اور پیسے سے لگاؤ کی بھی حد ہوتی ہے
توکہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے
ایک اچھی خبر طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ امن ہے اگرچہ یہ معاہدہ امن کی ضمانت ثابت نہیں ہوگا لیکن ایک اچھی کوشش ضرور ہے معاہدہ کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ امریکہ نے افغانستان میں امن کی کیاضمانت طلب کی ہے لیکن آثاریہی بتارہے ہیں کہ اس بدقسمت ملک کے نصیب میں امن لکھا ہی نہیں ہے امریکہ روایتی بے وفاقی اور طوطا چشمی سے کام لیکر اشرف غنی کی قیادت میں اپنے اتحادیوں کو بے یارومدد گار چھوڑدے گاجبکہ معاہدہ پر دستخط کے بعد طالبان یہی سمجھیں گے کہ اب انکے افغانستان پر قبضہ کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔اگرانہوں نے معاہدہ توڑ کر1996ء کی طرح دوبارہ افغانستان پر قبضہ کیلئے حملہ کیا تو بڑی خونریزی ہوگی خانہ جنگی اور افراتفری کے باعث ایک بار پھر ہزاروں لاکھوں لوگ بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے ویسے بھی حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد پختونوں اور شمالی اتحاد کے درمیان دراڑ پڑچکی ہے پختونوں کے اندر طالبان کیلئے پسندیدگی زیادہ ہے جبکہ قوم پرست اتنے طاقتور نہیں کہ وہ اشرف غنی اور انکے لبرل دوستوں کی مدد کرسکیں سرحد کے اس پار بھی طالبان کیلئے ماحول سازگار اور انکے اتحادی پھولے نہیں سمارہے کہ طالبان بہت جلد افغانستان پر قابض ہوکر نظام شریعت نافذ کردیں گے کوئی زمانہ تھا کہ ہمارے موجودہ وزیراعظم طالبان اور ملاعمر کے گرویدہ تھے لیکن امریکہ کی یاری نے انکے ہاتھ پیر باندھ دیئے ہیں اور وہ کھل کر طالبان کی حمایت نہیں کرسکتے البتہ مسابقت کایہ ماحول ضرور زور پکڑے گا کہ ریاست مدینہ اس طرف قائم ہوگی یا اس طرف اگرغور کیاجائے تو افغانستان کامسئلہ مزید پیچیدگی اختیار کرگیا ہے امریکہ اپنی جان چھڑارہاہے معلوم نہیں کہ وہ معاہدہ کے بعد فوج رکھے گا یا ویت نام کی طرح دم دباکر بھاگ جائیگا دونوں صورتوں میں طالبان کا غلبہ لازمی ہے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ طالبان اور پاکستان کے تعلقات ماضی کی طرح معمول پر آجائیں گے یا نئے حالات اور نئے علاقائی تقاضوں کے پیش نظر ان میں رخنہ آئیگا اگر طالبان غلبہ پاگئے تو امریکہ سے پہلے انڈیا چلا جائیگا اور اسکے ماہرین ایک لمحہ کیلئے بھی رک نہیں پائیں گے سرحد سے اس طرف یہ بات طمانیت کا باعث ہوگا کیونکہ طالبان ان لوگوں کونکال باہر کریں گے جو مختلف چھوٹی بڑی مزاحمتوں میں ملوث ہیں جبکہ ہزاروں پناہ گزینوں کو بھی مزید رہنے نہیں دیا جائیگا ایک اور اہم بات یہ ہوگی کہ طالبان اور ایران کے تعلقات کیسے ہونگے اگرطالبان نے دل سے امریکہ سے دوستی کرلی تو وہ اس دوستی کی خاطر ایران سے تعلقات کشیدہ رکھیں گے جس کی وجہ سے ایران بھی وہاں پر کچھ نہ کچھ مداخلت کرے گا اگر اشرف غنی اور شمالی اتحاد کے لوگوں کو محفوظ راستہ نہیں دیا گیا تو ایک بار پھر کئی ڈاکٹر نجیب حالات کی بھینٹ چڑھیں گے۔
افغان معاہدہ صدرٹرمپ کا ایک اوریوٹرن ہے کیونکہ انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد گرجتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دہشت گردوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور ان کا مکمل خاتمہ کرکے دم لیں گے لیکن آخر کار انہوں نے طالبان کو اسٹیک ہولڈر تسلیم کرلیا اور جنگ کی بجائے پرامن بقائے باہمی کے راستے کا انتخاب کرلیا اب یہ طالبان پر ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے کس حد تک بے رحمی یاصلہ رحمی کا مظاہرہ کریں گے۔اگر طالبان آگئے تو انڈیا کا افغانستان میں رول ختم ہوجائے گا بلکہ امریکہ،انڈیا تذویراتی پارٹنر شپ کو زک پہنچے گی اس پارٹنر شپ نے ابھی تک امریکہ کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ مودی ٹرمپ سے زیادہ پاگل ہے کوئی اپنے شاندار طریقے سے ترقی کرتے ملک کو اس طرح آگ نہیں لگاتا جو مودی نے لگائی ہے ان پر ہندوتواکاخبط سوارہے جس طرح کے جنرل ضیاء الحق پر اسلامی نظام کا خبط سوار تھا ضیاء الحق تو اسلامی نظام نافذ نہ کرسکے دیکھیں کہ مودی کیا کرتا ہے اب تک تو اس نے صرف نفرتوں کے بیچ بوئے ہیں جس کی وجہ سے سنگھ پریواربرملا کہتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ غلامی کاخاتمہ کرکے دم لیں گے آر ایس ایس کے جنونی عقل سے عاری ہیں کیونکہ ایک ہزارسال کے ازالہ کیلئے 19کروڑ مسلمانوں کا خاتمہ کرنا ہوگا یا انہیں زبردستی ہندوبنانا پڑے گا اور یہ دونوں ناممکن ہیں گزشتہ چھ ماہ میں جو کچھ انڈیا میں ہورہا ہے اس نے ساری دنیا میں اس کا امیج تباہ کرکے رکھ دیا ہے آہستہ آہستہ یورپی لیڈر بھی انسانیت کیخلاف مظالم پر بول پڑے ہیں مودی نے طیب اردگان کو توڈانٹ پلادی لیکن یورپی رہنماؤں کا کیا کرے گا بے شک ہندوستان بڑا ملک ہے اور وہ عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جس طرح برما کیخلاف عالمی عدالت میں کیس کیاگیا ہے اسی طرح بہت جلد مودی کیخلاف بھی جنگی جرائم کے ٹریبونل میں مقدمہ دائر ہوسکتا ہے۔یہ تو عمران خان ابھی تک خوف کے مارے چپ ہے ورنہ ابتک یہ مقدمہ دائرہوچکا ہوتا بی جے پی نے بابری مسجدی کی شہادت،گجرات کے قتل عام اور دہلی کی حالیہ واقعات تک جو کچھ کیا ہے وہ ایک بڑا مقدمہ بن سکتا ہے لیکن حکمران خوفزدہ ہیں کہ آگے جاکر کہیں انکے خلاف بھی جنگی جرائم کے ٹریبونل میں کوئی مقدمہ دائر نہ ہوجائے اپنے ہی شہریوں کیخلاف جو مظالم ہوئے ہیں اسکے کافی سارے ثبوت موجود ہیں کیونکہ دونوں طرف کم جنوں نہیں ہے مودی فرقہ واریت کا سہارا لیکر نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے اور یہاں پر ہر طرح کے مخالفین کیلئے برداشت کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔فی الحال انڈیا نے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو گھیرلیا ہے اور اسے دہشت گرد قراردلوانے پر تلاہوا ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب مودی اور اسکی حکومت خود دہشت گرد قرارپائے گی۔اس وقت تو ہندوستان کے مسلمان سراسمیگی اور بے بسی کاشکار ہیں انکی کوئی متحدہ قیادت نہیں ہے کوئی بتانے والا نہیں کہ وہ حالات کا کیسے مقابلہ کریں کانگریس کا حال فی الحال پیپلزپارٹی جیسا ہے اس لئے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ بی جے پی اور اسکی ذیلی تنظیموں کے مظالم روک سکے البتہ چار سال بعد جب وہاں عام انتخابات ہونگے تو بی جے پی کی طاقت کم ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ کانگریس دیگر جماعتوں کے تعاون سے اقتدار میں آئے یا کئی ریاستوں پر اسکی حکومت قائم ہوجائے لیکن آئندہ چار سال بڑے کڑے ہونگے اگر مودی نے پالیسی تبدیل نہیں کی توبدامنی دہشت گردی میں اضافہ ہوگا بھارت کی شرح ترقی گر کرپاکستان کے برابر آجائے گی بیرونی سرمایہ کی آمد رک جائیگی بیروزگاری میں اضافہ ہوجائیگا جس سے نئے مسائل جنم لیں گے اگر مودی میں تھوڑی بہت بھی سمجھ ہے تو وہ اپنی لگائی ہوئی آگ پر پانی ڈال دیں اور اپنے ملک اورجمہوریت کو شعلوں کی نذرنہ کریں اسی طرح بھارت اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ کشیدگی کم کریں اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں دخل اندازی کا سلسلہ ترک کردیں اور اپنے وسائل کو ڈیڑھ ارب انسانوں کی بدحالی اور غریبی ختم کرنے پر خرچ کریں۔
جنگ تباہی کا باعث بنے گی اور جنوبی ایشیاء اس کا متحمل نہیں ہوسکتا یہ جاننے کے باوجود عمران اور مودی جھک ماریں گے تو انکی مرضی ورنہ وہ دائمی امن قائم کرکے امن کے نوبل انعام کے حق دار قرارپائیں گے ورنہ ان کا عہد اقتدار کرونا وائرس کی طرح کروڑوں انسانوں کو بے وقت کی موت ماردے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں