سی ٹی ڈی جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کررہی ہے، سردار اختر مینگل

سردار اختر مینگل نے نجی ٹی دی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سردار تو سارے سرکار کے ساتھ ہیں، خاران جھالاوان اور نصیر آباد کے علاقوں کے تمام سردار سرکار کے ساتھ ہیں لیکن بھاگ کے لوگ آج بھی وہیں پر پانی پی رہے ہیں جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انگنت مسائل ہیں ایک سے بڑھ کر ایک مسائل دیکھنے کو ملیں گے البتہ اگر انسانیت کے ناطے دیکھا جائے تو لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت بلوچستان میں سب سے بڑ ا مسئلہ ہے۔ جنہیں اٹھایا جاتا ہے تو انہیں محلات میں تو نہیں رکھا جاتا بلکہ انہیں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا ہے اور ان عقوبت خانوں میں ان پر سنگین قسم کی تشدد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے سنگین ترین مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ لاپتہ ہو جاتے ہیں تو ان کے خاندان اور ورثاء شدید خرب میں جیتے ہیں، اُس دن جب میں نے لوگوں سے ایک موبائل گم جانے کا کہا تو سب اپنے اپنے جیبوں کو ٹٹولنے میں مصروف ہو گئے کہ کہیں ہمارا موبائل تو کھو نہیں گیا اور وہ پریشان ہو گئے اب ذرا سوچیں جن کے بچے اور گھر والے لاپتہ ہیں ان پر کیا گزر رہی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو انسانوں کا ملک سمجھا جاتا ہے اور بلوچستان کے لوگوں کو انسان سمجھا جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی ظلم کا مقام ہے۔ کیا جنہیں لاپتہ کرکے اذیت دی جاتی ہے یہ اس ملک کے شہری اور باشندے نہیں ہیں۔ ہم نے حکومت کو 5افراد کی لسٹ دی تھی اس میں صرف 400افراد کو بازیاب کیا گیا جبکہ اس دوران 1500مزید افراد کو لاپتہ کرکے زندانوں میں بند کر دیا گیا۔ ہمارے چھ نکات میں سرفہرست مسئلہ یہی تھا لیکن اس کے علاوہ بھی اگر ہم نے حکومت چھوڑ بھی دی ہے مگر حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے اگر وہ انہیں اس ملک کا شہری سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلے لاپتہ کرکے قتل کرنے کے بعد مسخ شدہ لاش سڑکوں اور ویرانوں میں پھینک دیتے تھے اور حالیہ دنو ں بلوچستان میں ایک نیا ادارہ سی ٹی ڈی کے نام سے بنایا گیا ہے۔ ہم نے جن لاپتہ افراد کی فہرست دی تھی انہی لوگوں کو اب سی ٹی ڈی درجنوں کے حساب سے قتل کرکے بیان جاری کرتی ہے کہ یہ لوگ مقابلے میں مارے گئے۔ یہ کس طرح کے مقابلے ہوتے ہیں کہ سرکاری گاڑیوں کا ایک شیشہ بھی نہیں ٹوٹتا اور ان کے اٹھارہ 19افراد قتل وہ جاتے ہیں اور وہ یہ کہتے بھی شرماتے نہیں کہ ان سے بھاری اسلحہ برآمد کر لی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں