اکیلے وزیراعظم اوراجڑا ہواچمن

تحریر; انور ساجدی
اگرچہ تحریک انصاف کے حلقے تسلیم نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ چندے کیلئے وزیراعظم ٹیلی تھون بری طرح ناکام ہوگئی حالانکہ پاکستان کے تمام چیدہ چیدہ پرائیویٹ چینلوں نے اس کانفرنس کو نشر کیاجسے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے دیکھا اسکے باوجود صرف55کروڑ روپے اکٹھے ہوئے ویسے تو وزیراعظم کے ٹیلی تھون کے ہزار پہلو تھے لیکن اسکی نمایاں بات وہ خصوصی دعا تھی جو دربار عمرانیہ کے قریبی ساتھی مولانا طارق جمیل نے کروائی بلاشبہ انہوں نے بہت خضوع وخشوع کے ساتھ دعا کی لیکن اس موقع پر بھی انہوں نے وزیراعظم کی خوشنودی کے حصول کا موقع جانے نہیں دیا مولانا نے ایک بار پھر انہیں دیانتدار اور ایماندار ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عمران خان اکیلئے ہیں اور انہیں اجڑا ہوا چمن ملا ہے وہ کیسے اس چمن کو اکیلے آباد کرے گا جب مولانا صاحب نے یہ کہا کہ ٹیلی ویژن جھوٹ نشر کررہے ہیں فحاشی پھیلارہے ہیں تو کانفرنس منعقد کرنے والے اینکروں کی حالت دیدنی تھی ایک خاتون اینکرمنیبہ مزاری زاروقطار رورہی تھی جبکہ کاشف عباسی سمیت کئی اینکر آبدیدہ تھے دعا کے دوران جب مولانا نے کہا کہ ہماری بچیوں کو کون نچوارہا ہے تو کئی اینکرسوچوں میں گم ہوگئے شائد وہ2014ء کو ڈی چوک پر ہونے والے دھرنوں کے مناظر یادکررہے تھے جہاں ہزاروں مردوزن دیواروار رقص کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت کررہے تھے الحاج طارق جمیل نے ملک کی منظر کشی نہایت دلداندوز طریقے سے کی اور فتویٰ صادر کیا کہ کرونا کی وبا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے انہوں نے کہا کہ اوپر سے نیچے تک ایمانداری کافقدان ہے بے ایمانی اور بددیانتی عام ہے فحاشی اور بے حیائی کا دور دورہ ہے ہمارے علماء کی ایک منطق سمجھ میں نہیں آتی جب بھی کوئی زلزلہ سیلاب یا وبا آئے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اعمال کانتیجہ ہے اگر پاکستان کی آبادی22کروڑ ہے تو اس میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے بھلا انہوں نے کونسے برے کام کئے ہیں جو کرونا کی وبا انکے اعمال کانتیجہ ہے دوسری بات یہ کہ22کروڑ لوگوں میں بیشتر تو ایماندار ہیں اور رزق حلال کمارہے ہیں صرف حکمران سیاسی رہنما اور بڑے بڑے اداروں کے اعلیٰ عہدیدار لوٹ مار میں مصروف ہیں بدقسمتی سے ان میں بڑے بڑے علماء بھی شامل ہیں اور یہ جھوٹ بہت زیادہ بولتے ہیں گوکہ مولانا نے ٹی وی چینلوں پرجھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا لیکن خود علماء کی بڑی تعداد کیا کیا کررہی ہے کئی علماء حکمرانوں کے قریب جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ان کی گفتار اور کرداراور ہے جس کااظہار مولانا طارق جمیل نے ایک بار پھر کیا حالانکہ وہ صرف دعا مانگتے اور حکمران وقت کی تعریف اور توصیف کاسماں نہ باندھتے تو کس نے ان سے پوچھنا تھا اور کیا ان کا یہ عمل ضروری تھا مولاناطارق جمیل جن کے بیان کو سب سے زیادہ سناجاتا ہے فیس بک پر انکے مداحوں کی تعداد2ملین کے قریب ہے بظاہر انہیں دربار سے وابستہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ماشاء اللہ سے پرتعیش زندگی گزاررہے ہیں اور اپنے راجپوت ہونے پر فخر کرتے ہیں جبکہ نسلی تفاخر ان جیسے عالم دین کے شایان نہیں میراذاتی خیال ہے کہ مولانا نے اپنے نئے بیان کے ساتھ اپنی شخصیت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے،
ٹیلی تھون کانفرنس کے ذریعے چندے کی اپیل کی ناکامی سے وزیراعظم کو بھی سبق سیکھنا چاہئے بقول جاوید میانداد کے جب سے وہ عمران خان کوجانتے ہیں وہ بچپن سے چندہ ہی مانگ رہے ہیں پہلے اپنے اسپتال کیلئے چندہ مانگتے تھے اور اب ہرمشکل مرحلہ میں وہ لوگوں سے چندہ مانگتے نظرآتے ہیں جاویدمیانداد نے کہا کیاکریں ہمارے نصیب میں چندہ ماگنا ہی لکھا ہے۔
جتنے چینل تھے انہوں نے پی ٹی وی ٹو بن کر وزیراعظم کی چندہ مہم چلائی تمام سوالات وزیراعظم کے مزاج کے مطابق تھے صرف کامران شاہد نے کہاکہ اس نازک مرحلے میں آپ زرداری اور شہبازشریف کو بھی ساتھ لیکر چلیں جس کا جواب وزیراعظم نے یہ دیا کہ اگر انکو ملاؤں تو جو چندہ ملنا ہے وہ بھی نہ ملے یعنی انہوں نے ایک بار پھر غریب اپوزیشن کو دھتکاردیا۔
مولانا طارق جمیل چونکہ معصوم آدمی ہیں انکے بقول وہ سیاست جانتے ہی نہیں اور نہ ہی معیشت کو سمجھتے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ جب عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا تھا تو اسکی شرح نمو پانچ فیصد تھی جو جون کے بعد گرکر منفی ایک اعشاریہ پانچ ہونے کاامکان ہے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ چمن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مزید اجڑ گیا اس سے پہلے کہ یہ بین الاقوامی ادائیگیوں سے انکار کردیتا خدا نے کرونا کی وبا بھیج دی اسکے نتیجے میں آئی ایم ایف نے1.4بلین ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اتنی رقم کی منظوری دی ہے عالمی بینک اور دیگر اداروں اور ممالک کی امداد الگ ہے وزیراعظم اور انکی ناکام معاشی ٹیم اس صورتحال سے خوش ہے اس لئے انہیں کرونا کے پھیلنے کازیادہ غم نہیں انہیں یہ فکر ہے کہ زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کی جائے وزیراعظم شروع سے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہیں لیکن آج تک کرونا کے بارے میں انہوں نے کوئی آگاہی مہم نہیں چلائی انہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ طبی ماہرین کی ایک ٹیلی تھون کانفرنس بلائیں اور ان پر زوردیں کہ وہ آگے بڑھ کر کرونا کی کوئی ویکسین دریافت کرلیں انہیں روزانہ کی بنیاد پر طبی ماہرین کو بلاکر عوام کیلئے بریفنگ کااہتمام کرنا چاہئے تھا یہ اقدامات تو کجا ابھی تک وفاقی حکومت نے کرونا سے نمٹنے کی کوئی قومی پالیسی تک نہیں بنائی اسکی وجہ سے وفاق اور الگ چل رہا ہے اور صوبے الگ چل رہے ہیں حالانکہ پنجاب اور پشتونخواء میں راہ راست عمران خان کی حکومت ہے جبکہ بلوچستان حکومت بھی ایک طرح سے وفاق کے تابع فرمان ہے صرف سندھ میں مخالفانہ حکومت ہے مختلف شعبوں کے بارے میں وزیراعظم کی جو جارحانہ پالیسی ہے اس نے رنگ دکھانا شروع کردیا ہے مثال کے طور پر اس وقت تمام پرائیویٹ ٹی وی چینل پی ٹی وی سے بڑھ کر وزیراعظم کی حمایت کررہے ہیں حالانکہ انہیں دبانے میں حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اسی طرح پرنٹ میڈیا کو بھی ڈرادھمکاکر اور اشتہارات بند کرکے حکومت اپنی شرائط پر لے آئی ہے چنانچہ آئندہ تمام چینل اور پرنٹ میڈیا یک آواز ہوکر حکومت کے گن گائیں گے اور حکومت کی جھوٹی کامیابیوں کے حق میں پروپیگنڈہ کریں گے ہٹلر نے تو جھوٹے پروپیگنڈے کیلئے ایک ڈاکٹر گوبلز رکھا تھا جبکہ اس حکومت نے بہت سارے رکھے ہیں جو روز چینلوں پرآکر اپنی کامیابی پرکامیابی کے بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں ابھی تو صرف ابتدا ہے اگر حالات نے ساتھ دیا تو اس ملک میں نہ سیاست سیاست رہے گی اور نہ صحافت کی حرمت باقی رہے گی جمہوریت کاجو حشر ہورہا ہے وہ پارلیمان سے حکمرانوں کا سلوک دیکھ کر اس کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے اپوزیشن کوکمال ہوشیاری سے تتربتر کردیا گیا ہے جب مولانا نے تحریک شروع کی تھی تو پی پی اور ن لیگ کوامید اورآسرا کی لولی پاپ دے کر انکی عملی حمایت سے منع کردیا گیا تھا چنانچہ مولانا بھی دونوں سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل سے دل برداشتہ ہوکر ایک طرف ہوگئے اب تو خیر کرونا اور رمضان شریف دونوں کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کی گنجائش نہیں ہے اس صورتحال سے حکومت کو سانس لینے کا ایک اور موقع ملا ہے کرونا کی وجہ سے 3ارب ڈالر ملیں گے اور قرضوں کی ادائیگی موخر ہوجائے گی اس صورتحال کوبھی حکومت اپنی سیاست کیلئے استعمال کرے گی ایسے میں اپوزیشن کا ایک بارپھراٹھنا اورحکومت کیخلاف نئی صف بندی کرنا مشکل ہے پھر بھی اپوزیشن کو زورلگاکر میدان میں آنا پڑے گا ورنہ اسے آئندہ انتخابات تک صبر سے کام لینا ہوگا اگرمولاناطارق جمیل کی یہ بات دوست ہے کہ وزیراعظم اکیلے ہیں اور انکی کوئی ٹیم نہیں ہے تو پھر بھی اپوزیشن میں جان پیدا نہ ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے کمزور اپوزیشن ہے ویسے تین،چار روز قبل شیخ رشید بھی یہی بات کررہے تھے کہ وزیراعظم اکیلے ہیں اور ٹیم بہت کمزور ہے سوال یہ ہے کہ کپتان نے اتنی کمزورٹیم کیوں رکھی ہے شائد اسکی وجہ کمزوراپوزیشن ہے اگروزیراعظم طارق جمیل کو بھی اپنی ٹیم میں شامل کرلیں تو انکے اکیلے ہونے کاتاثرختم ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں