بلوچستانی حکمرانوں کو قبرستان کا خوف , بایزید خروٹی

ہر شخص کو کوئی نہ کوئی خوف لاحق رہتا ہے۔ کسی کو اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔ تو کوئی بادلوں کی گرج چمک سے خوف محسوس کرتا ہے۔ کسی کو تنگ جگہوں سے خوف آتا ہے۔ تو کوئی سانپ اور چھپکلی سے ڈرتا ہے۔ بعض لوگوں کو اندھیرے سے خوف آتا ہے۔تو کوئی موت سے ڈرتا ہے۔ حالانکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس نے آ کر رہنا ہے سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ خوف کی وجہ سے انسان کا پورا جسم دباؤ میں آ جاتا ہے۔ 11 ارب کے کوئٹہ پیکیج کو کہیں تو خرچ کرنا تھا۔ اگر اینٹ و سیمنٹ کا استعمال نہیں ہو گا تو کمیشن کہاں سے بنے گا۔ اگر کمیشن نہیں بنے گا تو ان پوسٹوں پر لگنے کا فائدہ کیا ہے۔ صوبے میں میرٹ کو یقینی بنانے کی بازگشت گزشتہ 18 ماہ سے تواتر کے ساتھ گونج رہی ہے اگر آپ باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ٹیوٹر دیکھتے ہیں آپ کو یہی کچھ نظر آتا ہے کہ صوبے میں مکمل طور پر فعال حکومت وجود رکھتی ہے جس نے نظام میں موجود کرپشن کو یوں دبوچ لیا ہے جیسے مچھلی کو مگرمچھ دبوچتا ہے لیکن حقائق مختلف ہیں نظام میں چیک اینڈ بیلنس نظر نہیں آرہا ہے آج بھی بدستور ترقیاتی اسکیمات جو پی ایس ڈی پی میں شامل ہیں یا پروجیکٹس میں وہ سرکار نہیں بلکہ مختلف ٹھیکیداروں کی ملکیت بن چکے ہیں جس کی تصدیق ایک غیر جانبدار فریق سے کرائی جاسکتی ہے۔ شفافیت کا عالم یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جس طرح کی کرپشن کی جارہی ہے جس کو دیکھنے کے بعد آپ کو بڑی آسانی ہوتی ہے یہ بات سمجھنے میں کہ صوبے کے دوردراز علاقوں جہاں پر بدامنی یا پھر دور دراز ہونے کو بنیاد بنا کر تھوڑی بہت ڈھیل دی جاتی ہے وہاں پر کس طرح یا میرٹ کو کس طرح یقینی بنایا جارہا ہوگا وہاں پر کیا چیک اینڈ بیلنس ہوگا اس وقت اگر ہم صوبائی دارالحکومت کے ان علاقوں کی بات کرتے ہیں تو پہلے ہم وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی سرکاری رہائش گاہوں کے نزدیک ترین شاہراؤں کی بات کرتے ہیں۔ سرکلر روڈ کوئٹہ جو کہ ریڈزون میں ہے تو آپ کو احساس ہوگا کہ یہاں حکومتی سطح پر چیک اینڈبیلنس کوئی نہیں ہے۔ اس قدر کرپشن کی گئی ہے کہ جس کو دیکھنے کے بعد شاید ہر شخص جو کہ میرٹ کا دعوی کرتا ہو شرمندگی محسوس کرے کوئٹہ کی اہم ترین سرکلر روڈ‘ جناح روڈ سے پشین اسٹاپ تک جو کہ مکمل طور پر صحیح حالت میں تھی کو راتوں رات دوبارہ تعمیر کے نام پر اکھاڑ دیا گیا ہے صرف یہی نہیں بلکہ خجک روڈ کوئٹہ جو اس روڈ سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر ہے اور ریڈ زون کا مکمل حصہ ہے کو بھی صحیح حالت میں ہونے کے باجود توڑ دیا گیا ہے جو سرکاری املاک کونہ صرف نقصان پہنچانے کے زمرے میں آتا ہے جو ٹیکس کی پیسوں کا ضیاع ہے یہ وہ روڈ ہے کہ جس کا ایک حصہ ہمیشہ وی آئی پی موومنٹ کی زد میں رہتاہے اور صحیح و سالم سڑکوں کو اکھاڑا گیا ہے جس شہر میں صحیح سلامت شاہراؤں کو اکھاڑا گیا ہو اس شہر میں ڈبل روڈ سرکی روڈکانسی روڈ پشتون آباداور سریاب روڈ کی اکثر سڑکوں پر چلنا ممکن نہیں ہے بلکہ ان تنگ ترین شاہراہوں پر دونوں جانب غیر ضروری طور پر فٹ پاتھ لگائے گئے ہیں یہی نہیں ریڈزون کے اہم ترین حصے ٹی این ٹی چوک پرمکمل طور پر صحیح حالت میں موجود فٹ پاتھوں کو بھی توڑ کردو اینٹیں ساتھ لگا کر نئے فٹ پاتھوں کا نام دیا گیااس تمام عمل کی تصاویر اور ویڈیوز بارہا سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں لیکن خدا کی پناہ کہ کسی بھی شخص نے جن کا دعوی میرٹ کو یقینی بنانے کا ہے کوئی توجہ دی ہو۔ یا تو موجودہ حکومت کے افسران ایک پیج پر نہیں ہیں یا چین آف کمانڈ ٹوٹ چکا ہے حکام بالا بلوچستان بیان جاری کرتے ہیں اور اخباری دنیا میں کوئٹہ کو سرسبز بنانے کا عہد کرتے ہیں جبکہ ان کے ماتحت کمشنر کوئٹہ اپنے باس کی حکم عدولی کرتے ہوئے کمشنر آفس‘کسٹم آفس اور عسکری پمپ کے ساتھ پہلے سے موجود سبزہ زار کو ختم کرتے ہوئے ٹف ٹائل کے کاروبارکی نذر کرتے ہیں اور گھاس اکھاڑ دیتے ہیں حکمران کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں فج اسکمیات کومکمل طور پرختم کر دیا لیکن ایئرپورٹ پر مخصوص قبرستانوں کی دیوار گرا کر وہاں پر نئی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی گئی ہے اب اس پر رنگ روغن کا کام شروع کر دیا گیا ہے ہے کیاان پر کروڑوں روپے خرچ کرکے حکومت ان کو وال چاکنگ سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں