آج ہے مزدور کا دن

تحریر:آصف خان

آج کے دور میں بہت ہی کم مزدوں کو پتہ ہوگا یکم مٸی مزدورں کا دن ہے ۔کیونکہ مزدور آج کے دن بھی اپنی روٹی کےلیے سرگرداں ہیں۔دن تو انکا ہے لیکن افسوس اپنی دن کو منانے سے بھی محروم ہیں اس سال تو رہی سہی کسر کورونا واٸریس نے نکال دی ہیں نہیں تو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات ان کی مناسبت سے رکھ لی جاتی تھی البتہ اس پروگرام میں مزدور کو کوسوں دور رکھا جاتاتھا۔
مزدور کے لیے اس سے بڑھ كر اور كيا حق ہوگا کہ نبي كريم صلي الله عليه وسلم نے فرما ديا كہ:مزدور كا پسینہ سوكھنے سے پہلے اسکی مزدوری کی اداٸیگی کرلیا کروں۔۔لیکن اس پر بھی ہمارے معاشرے میں عمل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ہمارے ہاں مختلف دن مناٸے جاتے ہیں ۔اس دن کی مناسبت سے تحفے اور تحاٸف بھی دیٸے جاتے ہیں جیسے ہم برتھ ڈے پہ جس کی سالگرہ ہوتی اسے تحاٸف وغیرہ دیتے ہیں_ دعاٶں سےنوازتے ہے’_ پورا دن ایک باقاعدہ پلان تیار کیا جاتا ہے گھومنے پھرنے کا’ کام کو اس دن ہاتھ بھی نہیں لگانا وغیرہ_ تو مزدور ڈے پہ مزدور کو چھٹی کیوں نہیں ملتی ؟ کیوں اس کے لیے تحفے تحاٸف نہیں لیے جاتے’_ کیوں اس کو دعاٸیں نہیں دی جاتی’ لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھے اس دن ان کا کام اور بڑھا دیا جاتا ہے؟ کیونکہ وہ مزدور ہے ، کیا کچھ غلط کہا میں نے؟ جی نہیں بالکل ایسا ہی سوچا جاتا ہے’_ باتیں سنا سنا کر، یا پھر ایسا بھی ہوتا کہ تجھے جیسا کہا تھا ‘ ویسا کام ہی نہیں کیا’جیسے ہم نے بتایا تھا تو پھر مزدوری کس بات کی ہے تو مزدور بھی انسان ہےوہ بھی دل رکھتا ہے، کوٸی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا’ تو مزدور کو چھوٹا اور حقیر کیوں سمجھا جاٸے؟ کسی سے بات کرو یا سمجھانے کی کوشش بھی کرو ، کیا آپ کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہے، آپ ہی سے تو معاشرہ ہے، افراد سے جب معاشرہ جنم لیتا ہے تو’_ پھر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ’ ہر ایک نے اپنے حصہ کا دیا خود جلانا ہے’_ کیوں ہم اپنی غلطیاں دوسروں پہ تھوپتے ہیں؟ کیوں ہم اپنا موازنہ نہیں کرتے؟ اپنی سوچ کو نہیں بدلتے؟ یہ جو کہتے ہیں تبدیلی آٸے گی، تبدیلی آٸے گی، مگر جانے کب، تو ذہین سے یہ خیال نکال دیں کہ تبدیلی کوٸی تحفہ نہیں جو آپ کو ایک دم سے بھیجا جاٸے گا’_ جس دن اپنی سوچ بدلیں گے’_ کسی کو حقیر جاننا چھوڑ دیں گے اسی دن تبدیلی پروان چڑھے گی’_ اس دن کوٸی کام حقیر نہیں لگے گا’_ صرف انسان بن کررہیں’_ تاکہ خوشحال و ترقی پزید معاشرہ جنم لے سکے’_ اور یہ سب صرف ایک دن کی سوچ اورایک دن کے ولولے سے نہیں ہوگا’اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ’ ہم نے اپنوں کی خوشیاں دینی ہیں’ آج کورونا واٸرس کی وجہ سے کہیں مزدور پیشہ گھرانوں میں فاقہ کشی ہورہی ہیں کیا ہم نے کوشش کی ہے یہ جانے کی کوٸی بھوکا پیاسا نہ سوٸے’ تاکہ کسی کے بچے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نہ ترسیں،خود کشی اور فاقہ کشی کا خاتمہ ہوسکے’ ہر دن ہر پل سکون ‘ روشنی کی کرن تب ہی چمکے گی’ جب ہمارا ضمیر جاگے گا’_ کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں تو ہم کیوں دیں یہ فوقیت؟ آٸیے اپنے آپ کو بدلیں’_ تاکہ ہمارے اپنے خوش رہ سکیں’_ امیری غریبی کا فرق مٹا دیں’_ دلوں میں نفرتیں،حسد، بغض، کینہ رکھ کر کیا کریں گے جب زندگی ہی نہ رہی تو’_ اسی لیےاپنی زندگی کو بھی آسان بناٸیں اور دوسروں کی زندگیوں کو بھی آسان رہنے دیں_ یہ تحریر زیادہ طویل ہوگٸی اس کے لیے معذرت لے کر رہیں گے آزادی’_ پہلے خود کو اپنے نفس سے آزادی دلواٸیں جو کسی اور کو آزاد وخوشحال نہیں دیکھنے دیتا’ جب اپنے ضمیر کو ٹٹولیں گے تو یقیناً آپ مطمٸن ہوجاٸیں گے آپ اپنے اندراور باہر دونوں میں تبدیلی دیکھیں گے ۔

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں