کرنل (ر) انعام الرحیم کا کورٹ مارشل عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا، سپریم کورٹ

اسلام آباد:سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کی حراست سے رہا ہونے والے سابق کرنل سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ انعام الرحیم کا کورٹ مارشل سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا۔عدالت عظمیٰ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں بینچ نے کرنل (ر) انعام الرحیم کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومتی اپیل پر سماعت ہوئی۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی, ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع بریگیڈیئر فلک ناز عدالت میں پیش ہوئے، جہاں عدالت کے جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کرنل انعام ریٹائرڈ ہیں، ان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے، کیا سوچے سمجھے بغیر ہی کسی کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے؟۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ کرنل (ر) انعام الرحیم پر فوج نے سنگین الزامات لگائے پھر خود ہی رہا کردیا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انعام رحیم کو رہا کردیا ہے لیکن وہ زیرتفتیش ہیں۔اس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کرنل (ر) انعام رحیم کو عدالتی حکم پر رہا نہیں کیا گیا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انعام الرحیم کی رہائی کی وجوہات الگ ہیں، اس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ وجوہات کوئی بھی ہوں بات سنگین الزامات کی ہے۔نجی ٹی و ی کے مطابق جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، سویلین کے کورٹ مارشل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوگی، (لہٰذا) کرنل (ر) انعام الرحیم کا کورٹ مارشل سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ سول نوعیت کے جرم پر فوجی افسران کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، سول نوعیت کا جرم عام آدمی کرے یا فوجی، ٹرائل فوجداری عدالت کرے گی۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیرسول نوعیت کے جرم پر کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، فوجداری عدالت کو اختیار ہے کہ سول جرم میں جاری کورٹ مارشل کو روک سکے۔اس موقع پر ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع بریگیڈیئر فلک ناز نے بات کرنا چاہی تو عدالت نے انہیں روک دیا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کی نمائندگی کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل موجود ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ کمانڈنگ آفیسر نے دلیل کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کورٹ مارشل ہونا ہے کہ کیس عدالت میں جانا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اجازت کے بغیر آپ عدالت کو مخاطب نہیں کرسکتے، بات کرنے سے پہلے عدالت اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے اجازت لیں، عدالت خود آپ سے کچھ پوچھے تو ہی آپ جواب دے سکتے ہیں،آپ کا کام ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی معاونت کرنا ہے۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مذکورہ معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آچکا ہے، جو نکات عدالت نے اٹھائے ہیں ان کے جواب کیلیے وقت درکار ہے۔ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لیکر عدالتی سوالات کے جواب دوں گا، جس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں تین ہفتوں کا وقت دیدیا۔جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 94، 95 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 پر تیاری کرکے آئیں، سویلین کے کورٹ مارشل سے متعلق نقطے پر بھی معاونت کریں۔جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں