فدا شہیدجو اچھے مقرر اچھے شاعر اور اچھے لکھاری تھے

تحریر ۔۔۔ رزاق نادر

یہ غالباً فدا حمد کی شہادت مورخہ2مئی1988سے چار پانچ مہینہ قبل کی بات ہے جب کراچی میں اچانک لیاری فٹبال گراؤنڈ کے قریب سرِ راہے ان سے میری ملاقات ہوگئی۔کچھ عجلت میں میں بھی تھا اور شاید کچھ کچھ جلدی فدا احمد شہید کو بھی تھی اس لئے ہم دونوں اطمینان کے ساتھ کسی ہوٹل میں بیٹھ نہیں سکتے تھے بس کھڑے کھڑے ہم ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے رہے اور ایک دوسرے سے حال واحوال کرتے رہے۔
سب سے پہلے فدا احمد شہید نے ڈاکٹر خان محمد صابر (بڑے بھائی) جس کو ہم دوست پیار سے خان پکارتے تھے کے بارے میں پوچھا جو لفٹ کے لٹریچر کے حوالے سے میرے استاد تھے میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فدا احمد تفصیل بتانے لگے جو کچھ کچھ مجھے بھی معلوم تھا۔انہوں نے بتایا کہ خان صابر لاپتہ ہونے سے پہلے کراچی میں کسی بینک میں ملازمت کررہے تھے جب وہ سیر و تفریح کے لئے لغاری دوست کے ساتھ ڈیرہ غازی خان گئے اور وہیں سے لاپتہ ہوگئے۔پھر ان کا سراغ نہیں ملا۔ اسی دوران کچھ وقت گزرنے کے بعد کراچی سے تربت آنے والی ایک بس میں ان کا بسترہ وغیرہ وصول ہوا مگر وہ خود تا حال غائب ہے۔
جہاں تک خان صابر سے راہ و رسم کا تعلق ہے وہ اس طرح ہے کہ 1973میں خضدار کا لج میں تھرڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا جب بی ایس او (عوامی) کے کچھ دوست ڈاکٹرتاج گچکی(چیئرمین)ابو الحسن (صدر کوئٹہ زون)اور ڈاکٹر خان صابر تنظیمی دورے پر خضدار آئے جن کو ساتھیوں نے اپنے ساتھ ہاسٹل میں ٹھہرا یا۔رات کھانے کے بعد کسی کمرے میں میٹنگ ہوئی۔تنظیمی اور تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی اگلے دن ہمارے مہمان کوئٹہ کے لئے روانہ ہوگئے مگر خان صابر نے مجھ سے اپنا رابطہ بحال رکھا۔ہمارے درمیان خط وکتابت جاری رہی۔حسب حال میرے علم اور انفارمیشن میں اضافہ ہوتا رہا اور اس طرح خان صابر سے ہماری پکی دوستی ہوگئی۔وہ پڑھے لکھے شخص تھے بلوچی زبان کے اچھے شاعر تھے۔حال ہی میں بلوچی اکیڈمی نے ان کی کتاب (مجموعہ کلام)شائع کیا مگر فدا احمد کے برعکس وہ متلوں مزاج شخص تھے اس لئے ایک کام ادھورا چھوڑ کر دوسرے پر لگ جاتے۔ اسی کے مثل شروع میں وہ ڈاکٹری پڑھتے رہے۔میڈیکل میں دو تین سال ضائع کرنے کے بعد انفارمیشن آفیسرلگ گئے اس کے بعد خان صابر کو آڈٹ اور اکاؤنٹس کا شوق چڑھا پھر بینک جوائن کیا اور کراچی شفٹ ہوگئے جیسے کہ ہم نے بالا سطور میں عرض کیا ہے کہ وہ یعنی خان صابر کسی لغاری دوست کے ساتھ ڈیرہ غازی خان روانہ ہوگئے اور وہی سے لاپتہ ہوگئے ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ”واللہ عالم بالصواب“
حال واحوال کے دوران فد اشہید نے یہ بھی بتایا کہ ان کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہے حالانکہ وہ منکسرالمزاج اور شریف شخص تھے کسی سے ان کا لڑائی جھگڑا نہ تھا وہ پرامن شخص تھے اور نہ ہی بلوچ میار(Code Of Baloch Honour)کے تحت اس پر کسی کا ”بھیر“یابدلہ نہ تھا۔اس کی ذہانت اور قابلیت کے بارے میں پیارے استاد محبوب جمالدینی صاحب سے جب میں کتاب ”افتادگان خاک“ لینے گیا تو انہوں نے فرمایاکہ”فدا احمد سے زیادہ ذہین طالب علم میں نے نہیں دیکھا ہے“۔یہ الگ بات ہے کہ اب لِفٹ کی نظریات کی بجائے وہ دین کی طرف مائل ہیں جو اچھی بات ہے مگر کا ش وہ روس کی شکست اور سوشلزم کے خاتمے کے بعد اس طرح تبدیل ہوتے تو ہم سب کا بھرم رہ جاتا۔خیر یہ تبدیلیاں زندگی کا حصہ ہیں وقت کے ساتھ سب بدلتے ہیں استاد بھی اور شاگر دبھی کیونکہ بقول غالب یہاں ”بس ایک تغیر کو ثبات ہے“ جو عالمگیر اور آفاقی سچائی ہے۔
قارئین واضح رہے راقم فد ااحمد شہید کا یونیورسٹی فیلو رہا ہے اور ہم نے اکھٹے یونیورسٹی میں داخلہ لیا میں نے انگلش لٹریچر اور پھر پولیٹکل سائنس میں جبکہ فدا احمد نے اکنامکس میں ہمارا تعلیمی سیشن1975-76تھا اور ضیاء کے مارشل لاء کی وجہ سے اس نے 1977تک طول کھنچا۔میری معلومات کے مطابق فدا احمد نے کبھی کراچی میں داخلہ ہی نہیں لیا بلکہ چاروں ڈگریاں بلوچستان یونیورسٹی ہی سے حاصل کیں اور یہیں رہ کر انہوں نے صاف اور شفاف سیاست کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر نیشلزم اور لفٹ کی سیاست کرتے رہے وہ اچھے کارکن بھی تھے اور اچھے لیڈر بھی۔
داخلے کے فوراً بعد یونیورسٹی میں ایک تقریری مقابلہ ہوا جس کا عنوان تھا ’کہتے ہیں جسکو عشق خلل ہے دماغ کا‘جس میں فدااحمد نے پہلا انعام جیتا اس کے بعد اردو مشاعرہ ہوا جس میں میں نے اور فدا احمد نے حصہ لیا۔مشاعرے میں بھی پہلا انعام فد ا احمد جیتا جو ان کی قابلیت اور ذہانت کا مظہر ہے اچھے مقرر ہونے کے علاوہ وہ اچھے لکھاری اور شاعر بھی تھے ان کی ایک خوبصورت بلوچی نظم”پیتل“کے عنوان سے پندرہ روزہ نوائے وطن میں چھپ چکی ہے اتنی ساری خوبیوں کا مالک خونی اور جھگڑالو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھے جیسا کہ اس کے دشمن اور قاتل اس کے بارے میں پروپیگنڈا کرتے ہیں ان پر یہ الزام سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔کسی کو قتل کرنے اور مارنے کے حوالے سے یہ بہت ہی سطحی اور بچگانہ بات ہے انہوں نے ہر صورت میں فدا احمد کو شہید کرنا اور مارنا تھا اس لئے انہوں نے بلوچوں کے ایک بطل جلیل اور معصوم شخص کو بلاوجہ شہید کردیا۔
ویسے تو فدا احمد کو مارنے کی بہت ساری وجوہات و اسباب ان کے پاس تھے مگر فوری وجہ1967سے منقسم اور منتشر بی ایس او کو دوبارہ متحد اور منظم کرنے کا تھا جو ان کو کسی طرح ہضم نہیں ہورہا تھا چنانچہ ان لوگوں نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر ایک بیٹھک میں منصوبہ بنایا اور یوم مزدور کے موقع پر مورخہ2مئی 1988کو سازش کے تحت فدا احمد کو شہید کردیا۔مسلح قاتل مذکورہ تاریخ کو ان کے کتابوں کی دکان پر گئے جس میں فدا احمد کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے آتے ہی نشے میں دھت قاتلوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں موقع پر فدا احمد شہید اورمحمد جان رضان شدید زخمی ہوگئے۔دفاع میں یعقوب بلیدی نے فائرنگ کی تو بزدل قاتل نامردی کے ساتھ بھاگ گئے اور ایک ملعون پھیر میں گولی لگنے سے زخمی ہوا اور لنگڑا تا ہوا ہسپتال پہنچا موت کے خوف سے وہاں ہر ایک سے گھڑ گھڑا کر معافیاں مانگتا رہا کہ
خدا کے واسطے مجھے نہ مارو میں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا مگر بے لگام آزادی کی وجہ سے شہیدایوب جان بلیدی کے قتل میں بھی ملوث رہ کر اس نے قرآن کی یہ بات سچ ثابت کردی کہ ”ملعون تم کو اس گناہ پر معاف بھی کردیاجائے تو تم بعد میں بھی وہی کچھ کرو گے جو تم نے پہلے کیا تھا“ اس لئے کہ تم بھری فطرت پر پیدا ہوئے ہو اور اچھائی تم سے ہو نہیں سکتی۔
تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے یہ غداران وطن اب اس بیانیہ کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ قاتل شہید فدا کو مارنے نہیں ڈرانے اور دھمکانے گئے تھے مگر بُرا ہوا یعقوب بلیدی کاجس نے دفاع میں فائر کیا جس سے قاتل مشتعل ہوگئے اور انہوں نے مجبور ہو کر فدااحمد کو شہید کردیا ورنہ وہ تو مسلح ہو کر فدا احمد شہید کو پھولوں کا ہار پہنانے گئے تھے حالانکہ عقل کا اندھا بھی ان اقداما ت اور تیاریوں کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ صریحاً قتل عمد ہے اور قانونی حوالے سے یہ اقدام تعزیرات پاکستان کے دفعہ302کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ وہ باقاعدہ ایک پلان اور منصوبے کے تحت آئے تھے اور انہوں نے تیارشدہ سازش کے تحت یہ کار سیاہ سرانجام دیا اور اس پلان کو پا یہ تکمیل تک پہنچایا اور معصوم و بے گناہ بلوچ بطل جلیل کو اس لئے مارا کہ وہ اپنے اکلوتے ادارے(بی ایس او)کو تھوڑنے نہیں دے رہے تھے جسے انہوں نے بڑی مشکلوں سے متحد کردیا تھا۔فدا احمد شہید اور بی ایس او کے دیگر مخلص دوستوں نے1976سے قبل بی ایس او کو دوبارہ منظم اور متحد کرنے کی کوشش شروع کی تھی جو 1984 کوجا کر کامیاب ہوا مگر سازشی عناصر پہلے دن ہی اس اتحاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ پہلے دن ہی کسی نے آکر میرے سامنے کہا کہ ہمیں اتحاد قبول نہیں ہمارے لئے الگ ترانہ لکھو مجھے افسوس بھی ہوا اور حیرانگی بھی۔یہ دوست کس قسم کی بات کررہے ہیں شاید یہ آقا کا فرمان تھا اس لئے فدا احمد شہید کا مارا جانا ضروری تھا بس فدا احمد کو شہید کردیا جس کے لئے فیض صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔
ہم اہل دل کے لئے ہے یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
ہزار لعنت اور پھٹکا ر ہو اس بیمار معاشرے پر جس کے منفی اور بیمار افراد فدا احمد شہید کے قاتلوں سے نفرت کرنے کی بجائے ان کی پذیرائی کرتے ہیں اور اعزاز بخشتے ہیں اپنے اس منفی عمل سے وہ شہید فدا کے عزیز واقارب کی زخموں پر نمک پاسی کرتے ہیں جو سچائی اور انصاف کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور اپنے اس غلط اور ناپاک عمل سے وہ بلوچ قوم کے وارثوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ”گلے زمین“میں یتم کی لہو کی کوئی وقعت نہیں یہ نظم فیض صاحب نے ہارون کالج کراچی میں پرنسپل شپ کے دوران لکھی ہے۔خوبصورت نظم ملاحظہ ہو۔
یتیم لہو۔
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہوکا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشان
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگ ِنوک سنان
نہ خاک پہ کوئی دھبانہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ رزمگاہ میں بر سا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہابے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِسماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشینان تھا زرق خاک ہوا

گزشتہ سے پیوستہ
فدا احمد کی شہادت سے اس کے قاتلوں اور ان کے حواری کئی چھوٹے بڑے اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے جو ان کے مائنس ہونے کی وجہ سے ان کو یعنی قاتلوں کو فوری طور پر حاصل ہوگئے جن کو آگے جا کر میں بالترتیب بیان کروں گا۔ان کا پہلا اور سب سے بڑا ہدف خود فدا حمد کی ذات اور ان کو وجود تھا جس سے ان کو بہت خطرہ تھا اس لئے کہ فدا احمد نوجوانوں کے بہت بڑے ‘مشہوراور ہر دلعزیز لیڈر تھے جو ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے۔ذکری نمازی کارڈ بلوچ قوم کے خلاف بڑا اور خطرناک کارڈ تھاجوغالباً 1990-93میں کھیلا گیا مگر چونکہ فدا احمد نے عوام کے ساتھ مل کر اس پر بہت کام کیا تھا اور بڑی محنت کی تھی اس لئے یہ اہم کارڈ بھی ناکام ہوگیا۔
جب کبھی میں فدا احمد کے بارے میں سوچتا ہوں تو میر تقی میر کا یہ شعر فوراً میرے ذہن میں آتا ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
یہ شعر فدا احمد پر ہی صادق آتا ہے اب کیچ میں آدمی تو کئی پیدا ہونگے مگر ان میں کوئی فدا حمد نہیں ہوگا۔ان کے پیدائش میں صدیاں لگیں گی ۔فدا احمد کے مارے جانے سے دشمنوں کے کئی دیرینہ اور سہانے خواب پورے ہوگئے فدا احمد شہید کے قاتل جن کو اب ساری دنیا جانتی ہے جو بھی تھے فدا احمد کی شہادت سے ان کی پوری زندگی کا مشن جیسے مکمل ہوگیاجس کے لئے ان کو منتخب کر کے بی ایس او کے صفوں میں ڈال دیا گیا تھا ۔
ان کا دوسرا بڑا اوراہم ہدف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ادارہ تھا جو فدا احمد کی شہادت سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔قوموں کی زندگی میں ادارے کس قدر اہم ہوتے ہیں۔کسی دانشور کا یہ قول ملاحظہ کریں۔”ہم اس لئے غریب نہیںہیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ ہمارے ادارے غریب ہیں“۔جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے ادارے مضبوط اور منظم ہیں اس لئے وہ امیر ہیں اور ہم اداروں کو توڑتے رہتے ہیں اس لئے ہم غریب ہیں اور اس کار سیاہ میں ہمارے معاشرے کا ہرفرد ،لیڈر سے لیکر دانشور تک شامل ہے سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیںاور ذرا بھی ندامت محسوس نہیں کرتے اور ساتھ ساتھ گلہ بھی کرتے ہیں کہ ہم پسماندہ اور غریب کیوں ہیں ادارہ توڑ کر آپ غریب نہیں ہوں گے تو کیا بادشاہ ہوں گے۔کیونکہ قانونِ فطرت ہے کہ ہر اقدام اور عمل کا ایک منطقی نتیجہ ہوتا ہے جس سے کوئی قوم اور فرد متثنیٰ نہیں ہوتا ۔
بی ایس او کو لوگ سیاست کی نرسری کہتے ہیں جب کہ سلیگ ہیر ی سن نے اس کو بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں متوسط طبقے کا رول ادا کرنے والا ادارہ قرار دیا ہے ۔فدا احمد کی شہادت سے یہ نرسری سوکھ کر تباہ ہوگئی ہے اور دشمنوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں اور یہ نرسری اب کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہیں ۔جس کی وجہ سے سب کے سب انار کی اور افراتفری کا شکارہیں نتیجتاً سب کامریڈ ہیں اورلال خان کے پیروکار ہیں ان کی منافقت کی وجہ سے روس جب افغانستان میں امریکہ اور ملاﺅں کے ہاتھوںبرُی طرح پٹھ گیا اور یہ منافق اپنے بلوں میں چپ چپ کر تماشہ دیکھتے رہے ۔روس کی شکست اور مارکسزم کے خاتمے کے بعد یہ بلوں سے نکل آئے اور سینہ تان کر کہنے لگے کہ ہم تو اب ٹراٹسکی کو زندہ کریں گے جو اصل آدمی اور کامریڈ تھا اور پوری دنیا میں سوشلزم لائیں گے۔چھوٹے سے روس میں یہ سوشلزم کو نہ بچا سکے اب پورے گلوب میں سوشلزم لاکر اس کو بچائیں گے جو ان کی منافقت کا واضح ثبوت ہے”تاریخ کے خاتمے کے بعد نام نہاد بلوچ کامریڈ نیشنلزم کی جانب متوجہ ہونے کی بجائے فرسودہ لیٹریچر چھاپ کر دھڑا دھڑمارکیٹ میں لارہے ہیں اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم اب بھی کامریڈ اور سرخے ہیں تا کہ ہم دنیا کی ہمدردیاں بھی کھو دیں۔فدا احمد کی شہادت کے بعد نرسری کے تمام نوجوان سال میں ایک مرتبہ ثقافت کے نام پر ناچ اور ڈانس کرتے ہیں جیسے ثقافت” رویے“کا نام نہیں بلکہ صرف ڈانس کا نام ہے اوربلوچ نہ بہادر ہے نہ مہماندار ہے،نہ سخی ہے ،نہ بیر گیر ہے اور نہ ہی باہوٹ جل ہے بلکہ صرف اور صرف ڈانسر اور ”ناچو “ہے جو بے موقع و محل اور بغیر کسی تقریب کے بازاروں میں اپنے بے ہنگم ناچ کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ثقافت اور بلوچ میار سے ناواقف ہے ہی بلکہ وہ ناچ اور ڈانس کے حوالے سے جو کہ ایک فن ہے اور جسم کی شاعری ہے کہ وہ جمالیاتی حس اور ذوق بھی نہیں رکھتا جیسے ثقافت ،منافقت ‘ ناچ اور ڈانس ہی سے اقوام ترقی کرتی ہے ۔فدا احمد زندہ ہوتے تو شاید ہم اس حد تک نا معقولیت کا مظاہرہ نہ کرتے کچھ کچھ سنجیدہ بھی ہوتے اس لئے کہ ان کے دل میں خلوص اور محبت کی تپش تھی جب کہ ان کے ہاتھ میں سچائی کا مشعل تھا ۔
بلوچ سیاست کے نشیب وفراز سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں کہ سیاست کی نرسری یقنی بی ایس اوعوام اور منجھے ہوئے بلوچ سیاستدانوں کی تفویض تاریخی اور روایتی رول یعنی چیک اینڈ بیلنس سے ارادتاً منحرف ہوچکی ہے جس کے پیش نظر ان کی مقبولیت کا گراف کافی حد تک گر چکی ہے جو نیپ کے عظیم بلوچ سیاستدانوں کے دور میں ان کو حاصل تھی اس خوبصورت رول میں بی ایس او کو تمام بلوچ لیڈروں نے پسند کیا اوران کے اس خوبصورت رول سراہا بلکہ اس کو یعنی بی ایس او کو انہوں نے بلوچ سیاست کا ہر اول دستہ قرار دیا تھا اس ہر اول دستے کی وجہ سے بڑے جام صاحب مسلم لیگ کے لیڈر اور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اندرون بلوچستان اور مکران میں سیاسی دورے تک نہیں کرسکتے تھے ۔اب بلوچستان کی سیاست سب کے سامنے ہے یہ اس لئے کہ بی ایس او نے اپنے لئے از خود منافع خوری اور بد عنوانی کا قبیح اور بد صورت رول منتخب کیا ہے جو بہت بڑا یوٹرن ہے اور یہ یوٹرن ان کو مبارک ہو مگر اگر کبھی ضمیر آواز دے تو وہ اس پر ایک لمحہ ضرور غور کریں ۔سیاست کی یہ نرسری جو اپنے شاندارو خوبصورت رول اور نمایاں ماضی سے دستبردار ہوچکی ہے جو اس کی نیک نامی اور شہرت کا باعث تھی اور وہ رول چیک اینڈ بیلنس کا تھا جس سے بڑے بڑے اور نامی گرامی سیاستدان خائف تھے اور اب یہ عالم ہے کہ گندھی سیاست اور بھدے رول کی وجہ سے بی ایس او کے لیڈر اور کارکن خود خائف ہیں جو المیہ ہے اور یہ سب کچھ قاتلوں اور ان کے حواریوں کی منفی اور غلط سیاست کا منطقی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے فدا احمد جیسے مخلص لیڈر اور کارکن کے قتل میں یہقاتل ذرا بھی تامل نہیں کرتے کہ اس سے بلوچ عوام کو کن کن مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قارئین آپ یقین کریں کہ جب1983-84میں جب میں دوستوں سے ملنے ملانے تربت گیا تو ایک مہربان دوست نے ہماری دعوت کی جس میں دیگر دوستوں کے علاوہ بی ایس او کے ایک دانشور چیئرمین بھی شامل اور مدعو تھے دوران طعام چیئرمین صاحب نے بلا تردد فرمایا کہ” ہم لوگ الیکشن میں حصہ لینے جارہے ہیں “المیہ دیکھیں بی ایس او کا چیئرمین اور الیکشن کی بات۔اس وقت بی ایس او کی سیاست کے حوالے سے یہ بات معیوب سمجھی جاتی تھی یہ بات گناہ کبیرہ اور جرم سمجھا جاتا تھا اس لئے کہ یہ بات طلباءکی گزشتہ سیاست ان کے نعروں اور بیانیہ کے بلکل برعکس تھا۔یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی اور میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ الفاظ آپ کو زیب نہیں دیتے مگر چونکہ وہ دانشور اور چیئرمین تھے اس لئے وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے بلکہ بلواسطہ وہ اپنی حاصل کردہ تربیت اور تعلیم کا اظہار کررہے تھے اورسوال کر کے میں بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ آپ کی تربیت غلط ہوئی ہے لہذا قبلہ اور رخ درست کریں اور ایک مثل مشہور ہے کہ” جب آپ روم میں ہوں تو وہی کریں جو رومن کرتے ہیں“ مگر مجھے لگا کہ وہ کسی اور دنیا کے باسی ہیں جو ہماری دنیا سے مختلف ہے۔
قارئین اس سانحے کو بہتر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ماضی کی طرف جائیں جب پہلی مرتبہ 1967 میں بی ایس او فارم ہونے جارہی تھی بد قسمتی سے غلامانہ ذہنیت اور سازشوں کی وجہ سے بی ایس او تقسیم ہوگئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس انتشار نے طول کھنچا تو کچھ طلباءنام نہاد کامریڈوں اور ترقی پسندوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے ان کی غلط تعلیم و تربیت کی اور ایک پلان اور منصوبے کے تحت ان کو بی ایس او کے صفوں میں بھیجا تا کہ حسب پروگرام‘ منصوبہ و ہ مارکسسزم اور سوشلزم کی غلط تعبیر و تشریح کریں اور طلباءکو سوشلزم اور ترقی پسندی کے نام پربہکائیں اور گمراہ کریں ان کو یہ بھی سمجھا یا گیا تھاکہ وہ خود ساختہ اصطلاحات کی انبار لگائیں اور ان کو اپنے دوستوں میں پھیلائیں اور ان اصطلاحات کی پیچیدگیوں میں ان کو الجھائیں۔ کہتے ہیں کہ روم کی فتح کے دوران دشمن نے حملہ کیاتو عیسائی اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ صلیب پر چڑھتے وقت حضرت عیسیٰ علیہ سلام نے” پتیری روٹی کھائی یا خمیری “ وہ اس بحث میں الجھے رہے اور دشمن نے روم فتح کیا ۔بالکل اسی طرح فدا احمد شہید کے قاتلوں اور ان کے حواریوں نے طلباءکو اس طرح کی صورتحال سے دوچار کیا اور اپنا مشن اطمینان سے سر انجام دیا ۔حالانکہ لینن نے واضح طورپر کہاتھا ”میں اصطلاحوں کی جنگ میں نہیں پڑھنا چاہتا۔“مگر بقول منیر نیازی کیا کیا جائے کہ خود ہمارے اپنے لوگوں کو دھوکہ اور فریب کھانے کا بہت شوق ہے۔
کچھ شہر دے لوگ بھی ظالم سے
کچھ مینو مرن داشوق بھی سییِ
اور عطا شاد نے اسی صورتحال کواس شعر میں یوں موزون کیا ہے
ہم بھگولوں کے سطونوں پر کھڑے
دیکھتے ہیں آسمان بننے کے خواب
فدا احمد شہید ایک گیانی اور” آگاہ “نوجوان تھے سیاسی طور پر بہت باشعور تھے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کس قسم کی سیاست اس کے قوم اور خطے کے حوالے سے مناسب اور موزوں ہے وہ سیدھے سادھے اور انتہائی مخلص شخص تھے ان کو جھوٹ اور منافقت سے بہت نفرت تھی وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے ان کو اس بات کا بھی پتہ تھا کہ وہ کن لوگوں کے لئے سیاست کررہا ہے ان کی فوری ضرورتیں اور حاجات کیا ہیں اس کے لئے کو نسا راستہ اختیار کرنا چاہےے اور وقت کے ساتھ حکمت عملی کیا ہونی چاہےے۔
فدا شہید و ژنری شخص تھے مذکورہ تمام باتیں‘ قصے اور کہانیاں ان کے علم میں تھیںمگر انہوں نے ان سے غرض نہیں رکھا ۔ ترقی پسندی کے ساتھ ساتھ وہ کٹر قوم پرست بھی تھے۔ ان کی قوم دوستی بھی ان کے دشمنوں سے ہضم نہیں ہورہی تھی اس لئے انہوں نے ان کو راستے سے ہٹایا ۔
ان کو بلوچ قوم اور وطن سے عشق تھا ۔وہ قوم کے سچے عاشق تھے اسی عشق میں انہوں نے براہوئی زبان(کُردی) میں ایم اے کیا وہ غالباً مکران کے واحد شخص تھے جو روانی سے براہوئی بولتے تھے جو قوم اور وطن سے ان کے سچے عشق کو ظاہر کرتا ہے۔چو نکہ رقیب کے بغیر عشق نامکمل ہے ۔اسی حوالے سے فیض صاحب کے چند اشعار اس سانحے اور اس سے وابستہ دکھوں کو آپ پر زیادہ واضح کریں گے اور آپ اس ٹریجڈی کوبہتر سمجھ جائیں گے۔
رقیب سے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلارکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھیں ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جزترے اور کوسمجھاﺅں تو سمجھا نہ سکوں۔
قارئین آخرمیں یہ کہ پیارے بھائی اور نوجوان اچھے لکھاری زرک میر نے اپنی” کتاب شال کی یادیں“میں تحریر کیا ہے کہ ”پجار“واجہ عبداللہ جان جمالدینی اور محبوب جمالدینی لکھتے تھے اس سلسلے میں عرض ہے کہ” پجار “جو بی ایس او (عوامی) کا سیاسی آرگن تھا بقول فدا شہید اسے فدا احمد اوراس کے ساتھی لکھتے تھے وہ اس طرح کہ غالباً1979-80ءکی بات ہے کہ جب ہم یعنی فدا احمد ،مولا بخش دشتی،سلام جان جمالدینی،ڈاکٹر لعل بخش ‘کامریڈ ابراہیم اورڈاکٹر ثناءاللہ مشن روڈ میں بی ایم سی کے ناولٹی ہاسٹل میں خان صابر کے کمرے میں رہتے تھے تو میں نے ایسے ہی فدا احمد سے پوچھا کہ ”پجار“کون لکھتا ہے انہوں نے کہاکہ ”وہ ساتھی لکھتے ہیں“ کبھی کبھار میں دیرسے ہاسٹل جاتا تھا اسی طرح ایک شام جب میں دیر سے کمرے میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ چار پائی پر بیٹھ کر فدا احمد کچھ لکھ رہے تھے اور کمرے میں موجود باقی سارے دوست سورہے تھے۔ پروردگار فدا شہید کو جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر و جمیل عطاءفرمائے۔(آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں