شہید بشیر جان اور ان کے ساتھیوں کی تاریخی یادگار شہادت!

تحریر: زیور باقی بلوچ، مشکے
میں اکثر اپنی امی سے پوچھتی تھی، آپ کے ابو کا کیا نام ہے اور وہ کہاں گئے۔ کیونکہ سب بچوں کے دادا اور نانا ہیں، وہ ہر وقت ان سے ملنے جاتے ہیں لیکن امی جان نانی اماں کے گھر میں کوئی بڑے ابا نہیں ہیں۔ چونکہ میرے دادا جان بھی میرے پیدا ہونے سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔
میری امی جان نے بتایا مجھے یاد بھی نہیں میرے ابو جان کا چہرہ کیسا تھا۔ جب میں تقریباً تین سال کی تھی اور میری چھوٹی بہن چالیس دن کی تھی ہمارے ابو جان کو شہید کردیا۔ انہوں نے بتایا ہمیں تو پتہ نہیں ابو کا پیار کیا ہوتا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ کاش ہم بہن بھائی اپنے ابو کو دیکھ لیتے۔ امی نے بتایا کہ میری امی نے کم عمری میں بیوہ ہونے کے ساتھ ہم چار بہن بھائیوں کی تربیت کی اور آج الحمد للہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن باپ کا پیار نہیں …………………………
میری نانا کی شہادت
آج سے قبل دسمبر 1973ء کی بات ہے، جب مشکے میں اساتذہ کے ٹرانسفر اور دیگر علاقائی مسائل پر بی ایس او کے نوجوانوں نے احتجاج کی کال دی اور 10 دسمبر 1973ء کو مشکے بازار میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اسی دن بی ایس او کی جانب سے احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا۔ جس میں طلباء کے علاوہ میرے پیارے نانا بشیر جان احمد شاہوانی سمیت شہریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ہڑتال ختم کرنے اور جلوس کے شرکا کو روکنے کے لئے مقامی انتظامیہ نے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا اور مشکے بازار کے عین درمیان (اس جگہ کو اب شہیدان چوک کا نام دیا گیا ہے) لیویز اہلکاروں نے جلوس کے شرکا پر براہ راست فائرنگ شروع کردی جس سے 6 افراد موقع پر ہی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، جبکہ ماسٹررحمت اللہ ساجدی اور میر دلمراد ساجدی سمیت کئی لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔
شہید بشیر جان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پورے مشکے میں نہیں بلکہ بلوچستان کی تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے جنہوں نے بلوچ قومی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے حق و انصاف کے لئے اپنا خون بہایا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔
"یہ سچ ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے اور وہ ہر وقت زندہ رہتے ہیں اپنے کے ساتھ۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں