کیا بلوچستان، حکومت چلانے والوں سے محروم ہے

تحریر :نصیر بلوچ
اکثر و بیشتر لوگوں کو یہ تعجب ہے کہ عمران خان کی حکومت پارلیمانی طریقے سے گئی ہے یا کسی سازش کے تحت۔ بظاہر تو عمران نیازی کی حکومت ایک جمہوری طریقہِ کار اپنانے سے فارغ ہوئی ہے۔ پھر ایاز امیر، عمران ریاض جیسے پڑھے لکھے دیگر صحافی کیوں کر اس سازشی بیانیہ کے حق میں ہیں۔ چلیں آج اس تعجب کو دورِ کئے دیتے ہیں۔ ایکوڈارا جیسے غریب ملک نے جب امریکہ سے امداد کی اپیل کی تو امریکہ نے اپنے من پسند عہدےداراں اور ملک میں اپنے طرزِ احکامات صادر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جارج بش نے اپنے دورِ اقتدار میں نہ صرف صدام حسین کی تعریف کی بلکہ محکمہ خزانہ کو احکامات جاری کئے تھے کہ انہیں امداد مہیا کی جائے۔ 1 اگست 1990 نے صدام حسین نے امریکی وفاداریوں کو خاطر خیال میں نہ لاکر کویتوں پر حملہ کردیا یہ صدام حسین کی پہلی غلطی تھی جس کا بعد میں انہوں نے خود اظہار بھی کیا تھا۔ صدام حسین کی یہ غلطی پہلی عراق جنگ کی جانب پہلا قدم ثابت ہوا۔ 2009 میں افریقہ میں ملٹری آپریشن جاری تھی لوگ مارے جارہے تھے یہاں تک پریس مکمل بے بس تھا وہاں انکی رسائی ناممکن بنادی گئی تھی۔ نیک ٹرس نامی صحافی کے مطابق ہر طرف لوگوں کو زد و کوب کیا جارہا تھا۔ سینکڑوں لوگ مارے جاچکے تھے لیکن میڈیا میں نہ آنے سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی تھی۔ افریقہ کے اس جنگ کے پیچھے بھی امریکہ ملوث پایا گیا۔ نیکاراگوا وسطی امریکہ میں واقع ایک غریب ملک ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے قریب و جوار میں واقع غریب ممالک میں امریکہ نے صرف نیکاراگوا میں مداخلت نہیں کی ہے۔ اور مورخین کے مطابق مداخلت کے شواہد بھی نہیں ملے ہیں۔باقی تمام سلگتے ممالک سے امریکہ نے اپنے دییئے جلائے ہیں۔
تاریخ میں موجود مداخلت کے واقعات کو پاکستانی تعلیم یافتہ طبقہ جو عمران کے حق میں امپورڈڈ حکومت کے نعرے لگارہے ہیں پاکستان سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی سیاسی اشرافیہ افریقہ و دیگر خطوں سے خاصا مخلتف ہیں۔ یہ نہیں کہ یہاں امریکہ نے کبھی مداخلت نہیں کی ہے بلکل تاریخ میں متعدد بار امریکی مداخلت کے شواہد بھی ملے ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمرانی حکومت کو ہٹانے سے امریکہ کو کیا ملتا البتہ امریکہ تو خوش تھا کہ عمران خان کی حکومت نے سی پیک کا بیڑا غرق کردیا تھا سی پیک منصوبہ کو بالکل ناکام بنادیا گیا تھا پھر وہ یہ حکومت کیوں کر گِراتے جو آئی ایم ایف کا "یس مین” بھی بن چکا تھا؟ بہرحال کچھ چیزیں سوچنے اور سمجھنے کی ہیں جذباتی ہونے سے بہتر ہے اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ بلوچستان میں عوامی اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاسی اشرافیہ عوامی مسائل سے بے خبر لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ اس وقت وفاق اور بلوچستان میں مشترکہ الائنس حکومت قائم ہیں جو صرف اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہاں اگر اخترمینگل واقعی بلوچستان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو یہ انکے لئے ایک سنہرا موقع ہے۔ کچھ مسائل جو وفاق کی بس میں ہیں وہ ان پر ڈٹ کر وفاقی حکومت کو قائل کرسکتے ہیں چونکہ قائم کردہ حکومت دوٹانگوں پر کھڑی ہے اگر وہ اخترمینگل کو ناراض کر بیٹھے تو یہ انکے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے وہ قطعی ایسا نہیں چاہیں گے۔ سیلابی بارشوں سے کوئٹہ ٹاوں میں طغیانی کا منظر ہے، عوام سڑکوں پر ہیں کہی بھی کسی بھی چیز پر کوئی ریلیف نہیں ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان حکومت چلانے والوں سے محروم ہے۔
70 فیصد لوگوں کو یقین ہے کہ حکومت بلوچستان کے عوام کے لئے کوئی موثر کام کرنے کے بجائے آپسی بٹوارے میں مصروف ہیں۔ حالیہ سیلابی بارشوں نے سڑکیں تباہ کردی ہیں، کہی اضلاع میں پل گرچکی ہیں آمد و رفت کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ پانی کی فراہمی ناممکن بن چکی ہے۔ پورے بلوچستان کا انفرااسٹیکچر تباہ ہوچکا ہے۔ انگریزوں کے زمانے کے عمارتیں پانی کے پیچوں پیچ کھڑی ہیں لیکن بلوچستان کے جعلی ٹھیکداروں کے پل، سڑکیں ویسے ہیں نازک ہیں اس قدرتی آفت سے چور چور ہوگئے ہیں۔ ان سیلابی بارشوں میں عبدالقدوس بزنجو کا حلقہ آواران بری طرح متاثر ہوچکا ہے، پل ٹوٹ چکا ہے۔ آواران ٹو بیلہ آمد و رفت متاثر ہوچکا تھا جو بعدازاں ڈی سی آواران جمیل بلوچ اور لوکل گورنمنٹ نثار احمد صاحب کی ذاتی کوششوں سے دوبارہ بحالی ممکن بنایا جاسکا ہے لیکن ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔
کئی دہائیوں سے نہ بلوچستان بلکہ پاکستان میں بھی یہی نظام نافذ تھا کہ voters are” not choosers of their leaders” جو کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں یہ ثابت ہوا کہ تیزی سے جدت کی طرف گامزن دنیا میں اب مزید دھاندلی زدہ الیکشن ممکن نہیں۔ پہلے عوام نے اپنے حلقہِ انتخاب میں جس کو ووٹ دیا یا نہیں دیا وہ اتنا معنی خیز ثابت نہیں ہوتا۔ اب مزید توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ عوام جعلی لیڈروں کو بزریعے اپنے قیمتی ووٹ کرسیوں پر براجمان نہیں ہونے دیںگے۔ اصل نمائندہ کھل کر سامنے آسکیں گے اور موجودہ نمائندوں کو چاہئے کہ وہ محض باتوں کی حد تک نہ رہیں عملی کارکردگی کر دکھائیں وگرنہ آئندہ الیکشن نتائج شکست کی صورت میں ہوسکتی ہیں۔