سیاست میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا تشکیلی کردار

تحریر: محمد صدیق کھیتران
گزشتہ سے پیوستہ
مگرمچھ بھی حملے کرتے ہیں۔کچھ جانور ان کا شکار ضرور بنتے ہیں جبکہ اکثریت دوسری طرف کو نکل جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔اس ملک میں اب ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ شاید ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف کچھ قرضہ دے دے مگر وہ اپنے رسے کی طاقت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خبر چل رہی تھی۔سری لنکا کا صدر دبئی جا پہنچا اس کو وہاں پناہ نہ ملی۔وہاں سے مالدیپ پہنچا وہاں بھی پناہ نہیں ملی۔اور آخری خبریں آنے تک سنگاپور کی طرف جہاز کا رخ تھا۔فرار صدر کے بھائی سابق وزریر خارجہ علیحدہ ہیلی کاپٹر لیکر دنیا میں سیاسی پناہ ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔سب کو کویاد ہوگا شہنشاہ ایران کو بھی پانامہ جیسے ملک نے پناہ نہیں دی،جہاں شہنشاہ نے چوری کے پیسوں کے انبار لگائے تھے۔ ہمارا کپتان وزیراعظم بھی کہتا پھرتا تھا میں نے سری لنکا کے صدر سے مہنگائی کوکم کرنے کے گر سیکھے ہیں!!
کیا کمال کا وژن پایا ہے ہمارے راہنماوں نے؟؟
ابھی کل ہی غربت کے بارے میں ایک سروے رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ملک میں کل ملاکر 59 اضلاع ایسے ہیں جہاں غربت کی شرح عالمی درجہ بندی کے حساب سے بہت نیچے ہے۔ان میں سے سب سے کم آبادی والے بلوچستان صوبے کے 24 اضلاع شامل ہیں۔کیا ابھی بھی اس میں کوئی شک ہے کہ بلوچستان کے اندر جاری شورش کا تعلق معاشی بدحالی سے نہیں ہے؟
کیا یہ غریبوں اور امیروں کی جنگ نہیں ہے؟
جتنا کرپشن میں پیسہ یہاں ہڈ حراموں کو دیا جارہا ہے وہی پیسہ پندرہ بیس لاکھ کی متحرک آبادی کو بطور روزگار یا بے روزگاری الاونس دیا جاتا تو اتنے بڑے سانحات سننے کو نہ ملتے۔ہمارا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا صرف اپنے تعصب کی بنیاد پر خبریں چلاتا ہے۔ان کو عوام اور دکھی انسانیت سے کوئی ہمدردی نہیں۔وہ صرف ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے طور پر کام کررہا ہے۔
ایڈورٹائزنگ اس وقت تک موثر نہیں ہوتی جب تک اپنی خامیوں کو چھپانے کیلئے حریفوں کے خلاف تعصب نہ پھیلایا جاے۔کیونکہ انسان کے اندر یہ رویہ بہرحال موجود رہتا ہے۔کہ وہ مستقبل کے فائدے کی بجائے حاضر وقت کی تسکین کو ترجیح دیتا ہے۔مثلا”وہ اپنے اندر چھپے احساس کمتری کو مطمئن کرنے کیلئے عجیب عجیب تصور لیکر جلتا ہے۔ جیسے
1 انسان انتظار کرتا ہے کہ اس کو کیا کیا مل سکتا ہے
2 اپنے عقائد اور نظریات کو دوسروں پر نافذ کیسے کیا جاسکتا ہے
3 متواتر خوش فہمی میں رہنا کہ دوسرے اس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں
4 غلط اندازے لگانا کہ ان کا مستقبل کتنا تابناک ہے۔
سوشل میڈیا اس طرح کے تضادات کو مطمئن کرتا ہے۔اور آسانی سے انسان کے ہاتھ پے رکھی مشین کے ذریعے سے لاکھوں نظروں کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔یہ سوشل میڈیا چلانے والے اپنی ترویج کو فروغ دیتے ہیں۔اس کے ساتھ میوزک، رومانس، فلمیں، سسپنس اور مزاح کو یکجاکرکے ووٹرز کے زہنوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔نیند کے وقت کے علاوہ انسان کی نظر ہر لمحے ان سمارٹ فونز کی اسکرینوں پر ہوتی ہے۔وہ آسرے میں رہتے ہیں کہ اگلے لمحے ہی کیا کچھ نیا آنے والا ہے؟؟؟
بہرحال سوشل میڈیا ایک ختم نہ ہونی والے نشے کی عادت جیسا ہوگیا ہے۔
قدیم زمانے کی براہ راست جمہوریت اس قسم کی ہوا کرتی تھی۔جس سے شہری اپنے تعصب کو مثبت سوچ کے ساتھ بحث و مباحثے کے بعد درست کرلیتے تھے۔آج کے جو حالات ہیں۔اس میں تو سب کیلئے شدیدخلفشار کا ہی سامان پیدا ہوتا ہے۔ارسطو سے لیکر اس وقت تک کے تمام فلاسفروں نے کہا ہے۔کہ غلطیوں سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے۔کہ سب کی رائے کو یکجا کیا جائے۔اس کام کی راہ میں اکثر اوقات بشری انا آکھڑی ہوتی ہے۔اگر کسی طریقے سے برداشت اور تحمل کا مادہ تیار کیاجاسکے تو جمہوریت تعصب کو توڑنے کا سب سے کارگر ہتھیار ہے۔اس عمل کو اجتماعی دانش کا نام بھی دیاجاتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے اجتماعی رائے کو بڑھانے میں وسعت لائی ہے۔اجتماعی رائے کو وزن دینا، مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنا، پہیلیوں کو حل کرنا اوراس کی مدد سے ادب و کلچر کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔انٹرنٹ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے اندر کسی بھی سطح تک جانے میں کوئی خاص عملی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اب کسی ایک مقام پر جسمانی طور پر اکٹھا ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔بلکہ دنیا میں پھیلے ہوئے افراد ایک اسکرین یا سپیس (space) پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔اکٹھے فیصلہ کرسکتے ہیں جب ایسی سہولیات دستیاب ہوں تو اس کا سیاسی میدان میں بھی استعمال اتنی ہی چابک دستی سے ہونا چاہئیے۔ویسے مواصلاتی نٹ ورک جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔وہ بنیادی طور پر کارپوریٹ سیکٹر کے مفاد کی چوکیداری کرتاہے۔جس کو ایندھن ہمارے جذباتی رویوں سے ملتا ہے۔نئے حالات میں سخت سیاسی محنت کی تڑپ یاپھر لڑائی جھگڑے کی سیاست دوبارہ تلاش کرنا ناممکن ہے اور تلاش کر بھی نہیں سکیں گے۔کیونکہ ہمارے پاس مطمئن ہونے کے لئے اب بہت سارے نئے اسباب پیدا ہوگئے ہیں۔
مگر یہ حقیقت ہے۔جمہوریت آج بھی دنیا کا قابل قبول نظام ہے۔یہ اس وقت بھی دنیا میں رائج نظاموں میں سے سب سے بہترین نظام کہلاتا ہے۔اس کو مزید بہتر انداز میں اچھا کیا جاسکتا ہے۔
مگر وہ کیسے؟؟؟
ایک تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر سخت محنت کرکے اس کو جمہوری سیاست کیلئے استعمال میں لانا ہوگا۔یہ خودبخود نہیں ہوگا۔ سیاسی نمائندے خود ہی براہ راست جمہوریت کے تحت اپنے اختیارکو اس ٹیکنالوجی کے ذریعے استعمال کریں۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ قدیم یونانی طرز کی براہ راست جمہوریت اپنائی جائے۔بلکہ ان مشینوں کی مدد سے ناقص جمہوریت کے اندر بہتری لائی جائے۔تاکہ جمہوریت عام آدمی کے سامنے جوابدہ بن سکے۔
کچھ ملکوں میں اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کابہتر استعمال ہوا بھی ہے۔مثلا” جب 2008 میں آئس لینڈ میں مالی بحران پیدا ہوا۔تو ووٹرز سے نئے آئین بنانے کیلئے تجاویز آن لائن مانگی گئی تھیں۔اس کے علاوہ لوکل میونسپل کمیٹیوں کیلئے مختص بجٹ کے کنٹرول کا اختیار بھی عام عوام کو آن لائن رسائی تک دے دیا گیا۔سویڈن کے شہر اوسلو میں آن لائن سسٹم پر سیاسی جماعتوں کے کردار پربات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسپین،ارجنٹائن اور آسٹریا میں سیاسی جماعتیں انٹرنٹ استعمال کرکے اپنی اپنی پارٹی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن نے ووٹ کے اندراج اور تصدیق کو آن لائن نظام سے جوڑاہے۔ گلوبلائیزیشن کے اس دور میں ماحولیاتی مسائل، عالمی تجارت، عالمی صحت عامہ کے مسائل جیسے حالیہ” کرونا ” کی وبا اور ان پر اکثر فیصلے آن لائن ہوتے رہے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کسی بھی طرح کے پیچیدہ جمہوری مسائل کو حل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔اس کے لئے ظاہر ہے شروع میں ووٹرز کی جانب سے مخالفت کا سامنابھی آسکتا ہے۔مگر جمہوری سیاست دان اس سوشل میڈیا کو استعمال میں لاکر اپنے لیئے آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔اور اپنے ووٹروں کیلئے بھی عملی نمونہ بن سکتے ہیں۔حالیہ صدی میں مغرب میں سب سے بڑا فرق تعلیم نے ڈالا ہے۔کوئی کالج تک پڑھنے گیا ہو یا نہیں مگر سب سے اہم فرق یہ آیا ہے۔کہ وہ یہ بخوبی جانتا ہے ووٹ کس مقصد کی لئے دینا ہے یعنی اس کی ترجیہات میں عمر، طبقے، نسل، عقیدے، جنس اور مجموعی بھلائی سے جڑی کوئی بھی وجہ بن سکتی ہے۔
اسی تناظر میں امریکی منتخب صدر ٹرمپ اور یورپین یونین سے برطانیہ کے علیحدگی کے وقت رائے دہندگان کے روجحانات سامنے لاے۔فرانس کے صدرمائیکرون کی دوبارہ انتخابی جیت نے بھی اس پر تصدیقی مہر ثبت کردی ہے۔
اکثر اوقات تعلیم یافتہ لوگوں کا رویہ بھی قبائل کی طرح ہوتا ہے۔وہ آپس میں اتحاد کرلیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جمہوریت کے اندر کس طرح کھیلنا ہے۔ مگر اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔کہ وہ اکثر قبائلی جتھے داری کی بناپربھی عقل کل والی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ان بنیادی مسائل کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہی کی مدد سے نمائندہ جمہوریت کے طفیل حل کیا جاسکتا ہے۔
پچھلی صدی کے پہلے عشرے میں جب "میکس ویئبر ” جرمنی سے امریکہ دورے پر گیا۔تو اس نے امریکی محنت کشوں سے سوال کیا۔
"آپ مسلسل کیوں ان راہنماوں کو ووٹ ڈالتے ہیں جس کے وہ اہل نہیں۔اوریہی لیڈر بعد میں آپ تمام لوگوں کو مایوس بھی کرتے ہیں "
ان محنت کشوں کا جواب تھا۔” ہم ان پیشہ ور ڈاکووں پر تھوکتے ہیں ہم ان سے نفرت کرتے ہیں۔اگر یہ حکمران آپ کی طرح قابل ہوتے تو وہ لیڈر ہمارے منہ پرتھوکتے” یہی صورتحال آج ایک صدی بعد اکثر جمہوری ممالک خاص کر جنوب مغربی ایشیا میں ہے۔
ڈیجیٹل انقلاب نے ہمارے لئیے جمہوری سیاست کی گنجائش تو نکالی ہے۔مگر اس کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ اگر چیزوں کو بہتر کرنے میں رکاوٹ ہی جمہوری سیاست بن جائے تو پھراس کی بہتری کا کیا حل نکالا جاسکتاہے؟؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں