بلوچ لاپتہ افراد کیلئے دھرنے کے 23 دن، لواحقین کا تادم مرگ بھوک ہڑتال کا عندیہ

کوئٹہ (انتخاب نیوز) زیارت واقعے کیخلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے کو 23 دن ہوگئے، دھرنے کے 23 ویں دن بی ایم سی سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے 23 دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جن کے مطالبات ہیں کہ انکے لاپتہ پیاروں کو بازیاب کیا جائے، انہیں یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ انکے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں نہیں مارا جائے گا اور جو لاپتہ افراد سانحہ زیارت میں قتل کیے گئے،

بلوچ لاپتہ افراد کیلئے دھرنے کے 23 دن، لواحقین کا تادم مرگ بھوک ہڑتال کا عندیہ

جوڈیشل کمیشن قائم کرکے ان پر منصفانہ انکوائری کی جائے۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے جمعہ کے دن بولان میڈیکل کالج کے مین گیٹ سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی ریلی نکالی اور گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا۔ دھرنے کے مقام تک احتجاجی ریلی میں دوسری تنظیموں کے کارکنان کے ساتھ سول سوسائٹی کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی ریلی گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں دھرنے کے مقام پر آکر ختم ہوئی۔ ریلی نے دھرنے کے مقام پر آکر پرہجوم جلسے کی شکل اختیار کی، جہاں دھرنے میں شریک بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے دکھ درد بیان کیے۔ مقررین کا کہنا تھا جبری گمشدگیوں کیخلاف ہمارا پر امن احتجاج برسوں سے جاری ہے، ہم ملکی آئین اور قانون کے تحت غیر قانونی حراست کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں،

بلوچ لاپتہ افراد کیلئے دھرنے کے 23 دن، لواحقین کا تادم مرگ بھوک ہڑتال کا عندیہ

ہمارا شروع دن سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ تمام بلوچ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے، ان میں سے کسی پر اگر کوئی جرم ثابت ہوا تو بھلے اسے ہمارے سامنے پھانسی پر لٹکا دو لیکن برسوں سے انہیں غائب کرکے ہمیں اس اذیت میں نہ ڈالو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپکو اپنے ملکی آئین اور عدالتی نظام پر بھروسہ نہیں تو ہم کیوں ان کو مانیں؟ مقررین نے مزید کہا کہ ہم یہاں کوئی اور مراعات مانگنے نہیں آئے بلکہ اپنے پیاروں کی سلامتی مانگنے آئے ہیں، ہمیں یہ خدشہ اور ڈر گھروں میں بیٹھنے نہیں دیتا کہ کہیں ان کو زیارت واقعے کی طرح ماورائے آئین و قانون قتل نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اٹھائے گئے لوگ لاپتہ نہیں انہیں جبری طور پر اٹھا کر ریاستی اداروں نے اپنی غیر قانونی حراست میں لیا ہوا ہے۔ لواحقین نے عندیہ دیا کہ اگر اب بھی حکومت اور انکے مقتدر اداروں نے ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کیا اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو اگلے مرحلے میں تام دم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کریں گے۔ احتجاجی دھرنے میں صوبائی وزیر زمرک اچکزئی، بی این پی مینگل کے اراکین اسمبلی ثناء بلوچ اور شکیلہ نوید دہوار تشریف لائے جو حکام بالا کا یہ پیغام لائے تھے کہ لواحقین دھرنا ختم کردیں اسکے بعد انکے مطالبات پر پیشرفت ممکن ہے،

بلوچ لاپتہ افراد کیلئے دھرنے کے 23 دن، لواحقین کا تادم مرگ بھوک ہڑتال کا عندیہ

جب لواحقین نے منع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی وہ اس ریاست اور حکومت پر بھروسہ کرکے اپنے احتجاج اس شرط اور یقین دہانی پر ختم کرچکے ہیں کہ ان کے لاپتہ لوگوں کو چھوڑا جائے گا لیکن بجائے اس کے کہ ان کو زندہ بازیاب کرتے اب جعلی مقابلوں میں انکی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ جب گزشتہ دنوں یہی حکومتی وفد تشریف لایا تھا تو دھرنے میں موجود 46 لاپتہ افراد کی لسٹ اور دھرنے کے مطالبات اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لواحقین کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب طفل تسلیوں میں نہیں آنے والے۔ دریں اثناء آج نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اسحاق بلوچ بھی ایک وفد کے ساتھ دھرنے پر تشریف لائے اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ان کی پارٹی پالیسی کا حصہ ہے اور اس پر وہ انکے ساتھ کھڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں