ناراض بلوچ کون ہیں؟

تحریر:بالاچ قادر
14 اگست کی پرچم کشائی کے بعد بلوچستان اسمبلی کے احاطے میں منعقدہ تقریب سے وزیراعلیٰ بلوچستان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ناراض بلوچوں سے مذاکرات کریں گے۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے کا یہ سیاسی بیان 2013ء کو ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں ایجاد کیا گیا تھا جو ہنوز جاری ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے شاہ زین بگٹی کو ناراض بلوچوں کو منانے کا ٹاسک دیا تھا لیکن کچھ ماہ بعد شاہ زین بگٹی خود ناراض ہو کر پی ڈی ایم اتحاد میں شامل ہو گئے۔
بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ تو ہفتے میں اس طرح دو درجن بیانات جاری کرتی ہیں کہ ناراض بلوچ ہمارے بھائی ہیں ان سے مذاکرات کے لیے حکومت تیار ہے۔ اب تک اس سیاسی ٹرمنالوجی کی تشریح ہی نہیں کی گئی ہے کہ ناراض بلوچ کون ہیں؟ پاکستان کے وجود کے 75 برس بعد بھی اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو معلوم ہی نہیں کہ بلوچ بھائی آخر ناراض کیوں ہیں۔
گزشتہ 25 دنوں سے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے کچھ ناراض بلوچوں کا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ جن میں عمر رسیدہ خواتین سے لے کر شیرخوار بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے دھرنے کا آغاز اس وقت کیا جب زیارت میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر 9 افراد کو مقابلے میں مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا، تاہم برسوں سے جبری طور پر گم شدہ افراد کے لواحقین کی جانب سے بعد میں ان لاشوں کو شناخت کیا گیا۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو برسوں سے جبری طور پر گم شدہ تھے اور بعض کے کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
اس واقعے کے بعد لاپتہ بلوچوں کے لواحقین اور مختلف تنظیموں کی جانب سے کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور بعد میں ریلی نے گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون پر دھرنے کی شکل اختیار کرلی جو ہنوز جاری ہے۔
دھرنے پر بیٹھے ہوئے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے جن میں سرفہرست زیارت واقعے پر شفاف جوڈیشل کمیشن کا قیام تھا۔ حکومت کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعظم سواتی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا گیا ہے۔ (صوبائی سطح کے اس جوڈیشنل کمیشن کو بلوچستان کی قوم پرست جماعت اور وفاقی حکومت کی اتحادی بی این پی مینگل نے رد کر کے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے) تاہم دھرنے پر بیٹھے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ کسی بااختیار شخص کی اس یقین دہانی پر ہم اپنا دھرنا ختم کریں گے کہ آئندہ کسی بھی لاپتہ شخص کو جعلی مقابلے میں مارا نہیں جائے گا اور حکومت کو فراہم کی گئی لسٹ میں شامل لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا۔
پچیس دن گزرنے کے باوجود بھی حکومت کی طرف سے اس دن دھرنے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حکومت واقعی اس مسئلہ پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی یا حکومت کے پاس وہ اختیار موجود نہیں جو لواحقین کو یقین دہانی کروا کے ان کا دھرنا ختم کرائے۔
دوسری جانب قدوس بزنجو کے حالیہ بیان کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے اور رد عمل سامنے آیا۔ گزشتہ تیرہ سال سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی اور اس دھرنے کو لیڈ کرنے والی سمی دین محمد نے وزیراعلیٰ کی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا: "واجہ عبدالقدوس بزنجو، مجھے نہیں پتا ہے آپ کی ڈکشنری میں ناراض بلوچ کون ہیں مگر گزشتہ 25 دن سے ہم آپ کے آفس سے چند قدم کی دوری پر بیٹھے ہیں مگر ہمیں دیکھ کر آپ کی لال سبزبتی والی گاڑیاں منہ پھیر لیتی ہیں، ہمیں تو آپ ایک ملاقات کے قابل نہیں سمجھتے، نجانے کون سے ناراض بلوچ ہیں جن سے آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
سمی نے کہا کہ "قدوس بزنجو کے پاس اگر ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کا اختیار نہ سہی لیکن بحثیت بلوچ وہ آ کر ان ماؤں سے ملتے جو ان کے دروازے پر گزشتہ 25 دن سے کسمپرسی کی حالت میں بیٹھی ہوئی ہیں۔”
یاد رہے کہ سمی دین کا تعلق بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے حلقہ انتخاب آواران ہی سے ہے۔ قدوس بزنجو اگر سمی کے والد ڈاکٹر دین محمد سمیت دیگر لواحقین کے پیاروں کو بازیاب نہیں کروا سکتے تو کم از کم بلوچ ہونے کا فرض نبھا کر اپنی چوکھٹ پر بیٹھی ہوئی ان خواتین سے آ کر ملاقات تو کرلیں، بلوچ دروازے پر آئے ہوئے مہمان (چاہے دشمن کیوں نہ ہو) کو خوش آمدید کر کے ان کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ لیکن ان بے بس خواتین اور بچوں کی آہیں شاید آہنی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ اب کم از کم قدوس بزنجو یہ نہ کہے کہ میں ناراض بلوچوں سے مذاکرات کروں گا کیوں کہ گزشتہ پچیس دنوں سے ریڈ زون پر خیمے لگا کر خانہ بدوش کی طرح رہنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین ہی تو ناراض بلوچ ہیں۔ بل کہ یہ شدید ناراض ہیں، اس سسٹم سے، ریاست سے اور حکمرانوں سے۔ ریاست اگر واقعی بلوچ بھائیوں کی ناراضگی کو دور کر کے انہیں دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنا چاہتی ہے تو ان ماؤں سے مذاکرات کرے۔ ان کے دکھ درد سنے۔ انہیں یہ احساس دلائے کہ آپ کے پیاروں کو بازیاب کر کے آپ کی ناراضی دور کی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں