آواران کا تعلیم اور ہمارا ساچان

تحریر۔ معراج لعل

اِس جدید دور میں ہر کوئی بخوبی سے واقف ہوگا کہ تعلیم زندگی کی اہم اشیا میں شمار ہوتا ہے جس کے بغیر زندگی نہ مکمل اور اسے بسر کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ایک قدیم چینی کہاوت ہے ” اگر تمھارا منصوبہ سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو، دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاو اگر دائمی ہے تو تربیت یافتہ افراد پیدا کرو کیونکہ تعلیم ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔
تعلیم کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہی گی خواہ وہ مذہبی نوعیت کی ہو یا پھر دنیاوی۔ کیونکہ تعلیم نے ہمیشہ معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں پرائمری تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہی بچے کی بنیاد بناتی ہے اور ایک بار اگر بنیاد مضبوط پڑگئی تو اس پر عمارت کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ صوبہ بلوچستان جو کہ وسائل سے مالا لال ہے وہاں کے آواران جیسے ڈسٹرک میں بچے پرائمری اسکول سے محروم ہیں۔ ہاں اگر ایک دو کمرہ نماہ عمارتیں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر وہاں نہ کوئی اساتذہ موجود ہیں اور نہ ہی کوئی اچھی سہولت ہے۔
تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم والدین اپنے ننے منے بچوں کو اپنے آپ سے کوسوں دور رکھ کر شہر بیجتے ہیں جن کا عمر لگ بگ تین سے چار سال ہوتا ہے جس عمر میں بچے اکثر ماں باپ کے پاس رہ کر مہر و محبت حاصل کر کے لاڈ اور پیار سے پرورش پاتے ہیں۔مگر ضلع آواران کے رہائش پزیر والدین دل پر پتھر رکھ کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بچپن ہی سے اپنے آپ سے دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہر منتقل کرتے ہیں ،بھلا وہ ہمارے دئیے ہوے لاڈ اور پیار سے محروم رہیں مگر تعلیم سے ہرگز نہیں۔
ایک چار سال کا بچہ جسے ہم سب دوست پیار سے ساچان کہہ کر پکارتے ہیں جس کا تعلق ڈسٹرک آواران سے ہے۔ جو اس وقت شال میں زیر تعلیم ہے ،جب بھی اس معصوم پر نظر پڑھتی ہے تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے، جو میں نے الحمداللّٰہ لاڈ پیار سے اپنے والدین کے ساتھ رہ کر گزارہ تھا۔ اسکول کے لیے دیر سے اٹھنا ، امی جان کی باتوں کو اِس کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنا ، ناشتہ اپنی مرضی سے کرنا ، ابو کا مجھے اسکول تک چھوڑنا، اپنے پسند اور نا پسند چیزوں کی خواہش کرنا۔ وہ سب کچھ کیا جو زیازہ تر بچے بچپن میں کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ساچان میری طرح نہیں ہے۔ نہ وہ اپنا بچپن اپنے والدین کے پاس گزار سکتے ہیں اور نہ ہی بچپنا خواہش کرسکتے ہیں البتہ یہاں بھی سب اپنے ہی ہیں کسی بھی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتے مگر والدین کا پیار اور محبت نایاب ہوتا جو ہر کوئی نہیں دے سکتا۔
آخر کب تک آواران کے بچے اپنے بچن کا قربانی دے کر پڑاھی کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کریں گے، آخر کب تک ان کنڈرات نماہ کوٹیوں کو اسکول کی شکل دی جائے گی؟میں درخواست کرتا ہوں حاکموں سے کہ ضلع آواران کے جتنے بھی تعلیمی مسائل ہیں انہیں حل کریں اور اساتذہ کو سختی سے ڈیوٹی کے لیے پابند کریں تاکہ اِن ننّے مننّے بچوں کا مستقبل برباد ہونے سے بچ سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں