عنوان۔صحبت پور میں سیلاب کے باعث تباہی

تحریر:مظہر مینگل

گزشتہ کئی ماہ سے صحبت پور میں جو سیلاب آیا تھا وہ سیلاب ایک آفت نہیں بلکہ یہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی نا اہلی کی وجہ سے آیا تھا۔ مختصر یہ کہ جب ووٹوں کے دن آتے ہیں تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے چمچے غریبوں کو لات مار کر ان سے ووٹ لیتے ہیں، غریبوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ ووٹ کے دن گزر جانے کے بعد کسی سے ملتے نہیں۔
آج جب غریبوں کے بچے ڈوب گئے اور وڈیروں کے بچے سکونیت سے باہر بیٹھ کر مزاحیہ انداز میں ناچ رہے ہیں اور جب کل واپس آکر کہیں گے کہ میر صاحب ہم تباہی کا شکار ہوئے ہیں، ہمارا تو ذرا برابر بھی کچھ نہیں بچا، اگر ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز پہلے سوچتے تو پورا صحبت پور سیلاب کی زد سے بچ جاتا، لیکن ان کو فرصت کہاں ملتی ہے۔ کاش اگر وہ نہروں کی اچھی طرح سے صفائی کرواتے تو آج پٹ فیڈر کینال اور کچھی کینال نہیں ٹوٹتے اور پورا ڈسٹرکٹ سیلاب کی زد میں نہ آتا اور نہ ہی لوگوں کی جانیں جاتیں۔ میں جب بھی اس منظر کو یاد کرتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے کہ ہماری ماں، بہنیں، بوڑھے اپنے گھروں کو چھوڑ کر آسمان تلے روڈوں پر بیٹھے ہوئے تھے تمہاری نظر میں یہ کوئی کچا مکان ہوگا جو گرگیا تو کیا ہوا، پھر لوگ بنالیں گے، پر یہ کچے مکان کسی غریب کے گزری ہوئی یادیں تھیں تو کسی غریب کے لیئے آنے والے خواب تھے، یہ کچے مکان اس طرح نہیں بنتے اس میں بھی غریب لوگوں کے خون پسینے کی کمائی شامل ہوتی ہے، تم ایئر کنڈیشنر میں سونے والے اقتدار کے نشے میں دھت کیا جانو اس کچی کوٹھی کا سکون، یہ کچی کوٹھی اس سفید پوش کی پوشاک ہے جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا، یہ کچی کوٹھی اس نوجوان کے لیے وہ آرام کی جگہ تھی جہاں وہ حلال کمانے کے بعد سکون کی نیند سوتا تھا، یہ کچی کوٹھی اس غیرت مند عورت کا پردہ ہے جو کبھی بے پردگی کا سوچ کے بھی ڈر جاتی تھی لیکن تمہاری اس نہ اہل انتظامیہ، بوسیدہ اور لالچی نظام نے اپنے مفاد کے خاطر اسے مصنوعی سیلاب کی نظر کر کے بے گھر و بے پردہ، بے یارو مددگار، سڑکوں پر بٹھا دیا۔ نہ سر چھپانے کو کوئی خیمہ نہ کھانے کو کوئی چیز نہ راشن کی امداد نہ میڈیکل کیمپ، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، بوڑھے بیماری میں مبتلا، جوان اپنے ارمانوں کو پانی میں بہتا دیکھ کر ٹوٹ چکے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں خدارا مت کھیلیں انکی زندگیوں سے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں