پاک ایران سرحد راہداری گیٹ تنازع، ڈی سی اور اے سی چاغی کو معطل کردیا گیا

کوئٹہ (آن لائن) پاک ایران سرحد کے راہداری گیٹ پر پیش آنے والے تنازع کے بعد چاغی کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ اور اسسٹنٹ کمشنر عصمت اللہ اچکزئی کو معطل کردیاگیا۔محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (سروسز) کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق دونوں آفیسران کو غیر ذمہ دارانہ رویے کی بناءپر مجاز اتھارٹی (چیف سیکرٹری بلوچستان )نے معطل کردیا ۔بتایاجاتاہے کہ ضلعی انتظامیہ کے دونوں آفیسران کو 25ستمبر کو پاک ایران تفتان سرحد کے راہداری گیٹ پر ایف سی اہلکاروں کے ساتھ پیش آنے والے تنازعہ کے بعد تادیبی کارروائی کاسامنا کرناپڑا ہے۔ ایف سی اور عسکری حکام نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو آگاہ کیاتھا کہ ضلعی انتظامیہ کے آفیسران اور لیویز اہلکاروں نے راہداری گیٹ کے تالے کو توڑ کر ریلوے آفیسر کو ایران جانے دیا۔اس دوران منع کرنے پر ایف سی اہلکاروں پربندوق تانی گئی اور بدسلوکی کی گئی ۔ایف سی حکام نے گیٹ پر تعینات اہلکاروں کی رپورٹ پر چیف سیکرٹری سے دونوں آفیسران کے خلاف کارروائی کی درخواست کی تھی ۔چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے معاملے کانوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ انسپیکشن ٹیم کو فوری تفتان پہنچنے کی ہدایت کی۔ چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم عبدالصبور کاکڑ اور ممبر سیدظفر بخاری خصوصی طیارے کے تفتان پہنچے ۔ کمشنر رخشان سیف اللہ کھیتران بھی واقعہ کی اطلاع ملنے پر خاران سے تفتان پہنچے ۔ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم اور کمشنر رخشان ڈویژن نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور ایف سی کے اعلیٰ آفیسران سے ملاقات کی ۔ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے بیانات بھی قلمبند کئے گئے ۔ سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی چیف سیکریٹری نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کردیا۔ ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ نے کمشنر مکران اور سی ایم آئی ٹی کو زبانی اور تحریری طورپر دئےے گئے اپنے بیان میں بتایاکہ ایف سی اہلکاروں نے سرکاری امور کی غرض سے ایران جانے والے ریلوے کے ڈویژنل ٹرانسپورٹ آفیسر محمد ابراہیم کو وزارت ریلوے کی جانب سے این او سی اور دیگر دستاویزات ہونے کے باوجود ایران جانے نہیں دیا اور مہمان افسر اور لیویز اہلکاروں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریلوے افسر ایران سے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان کی ٹرین کے ذریعے پاکستان ترسیل کے سلسلے میں ایرانی حکام سے مشاورت کیلئے ایران جارہے تھے اور سرحد کے دوسری جانب ایرانی حکام انتظار میں کھڑے تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے بیان میں مزیدبتایاکہ ایرانی حکام سے مشاورت کا فیصلہ 14ستمبر کو این ڈی ایم اے کی جانب سے آن لائن میٹنگ میں کیا گیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے اسی فیصلے کی روشنی میں ریلوے آفیسر کو ایران جانے کیلئے راہداری دی تھی ۔ڈپٹی کمشنر کاکہناتھاکہ 2019ءسے اب تک تقریباً 68افراد راہداری پر ایران جاچکے ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ضلعی انتظامیہ، محکمہ داخلہ، کسٹم ، ریلوے ،چیمبر آف کامرس، ایف آئی اے سمیت دیگر سرکاری محکموں اور چیمبر آف کامرس کوئٹہ سے تھا۔ ریلوے کامذکورہ آفیسر 2019ءمیں بھی سرکاری امور کے سلسلے میں راہداری پر ایران جاچکاہے ۔بیان میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ایف سی اور لیویز اہلکار مشترکہ طور پر حفاظت کررہے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے درمیان 1960ءکے معاہدے کے تحت راہداری دینے کا اختیار متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور راہداری گیٹ کا انتظام و انصرام متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے ذمہ ہے ۔اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ریلوے آفیسر کو راہداری دی گئی تھی ۔ڈپٹی کمشنر نے بتایاکہ وقوعہ کے دن راہداری ہونے کے باوجود ایف سی اہلکاروں نے ریلوے آفیسر کو ایران جانے سے روکا جب معاملے کا علم ہوا تو اسسٹنٹ کمشنر کو جائے وقوعہ پربھیجا لیکن ایف سی اہلکار اپنی بات پر قائم رہے ۔ڈپٹی کمشنر نے انکوائری کمیٹی کو بتایاکہ وہ خود بھی موقع پر گئے اور ایف سی اہلکاروں کو سمجھایا لیکن ایف سی اہلکار کا موقف تھاکہ وہ اپنے آفیسران کی اجازت کے بغیر کسی کو جانے نہیں دینگے اس دوران انہوں نے لیویز اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی ۔ڈی سی نے بتایاکہ انہوں نے متعلقہ ایف سی کے آفیسران سے بار بار رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیاڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد انہوں نے اپنے اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے قومی مفاد کی خاطر ریلوے آفیسر کو ایران جانے کی اجازت دی ۔ڈی سی نے ایف سی اہلکاروں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ معاملے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں