اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسر کو ایک کیس کی تفتیش کیلئے صرف 350 روپے ملتے ہیں، پولیس


اسلام آباد: اسسٹنٹ آئی جی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسر کو ایک کیس کی تفتیش کے لئے صرف 350 روپے ملتے ہیں۔ جمعرات کو کریمنل جسٹس سسٹم سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کی۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور سابق آئی جی پولیس شعیب سڈل عدالت میں پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق کو ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے اور عدالتی معاونین کو بھی تحریری سفارشات جمع کرانے کا حکم دیا۔ دور ان سماعت عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیا سب سے اہم سٹیک ہولڈر ہے، آپ بھی اپنی تحریری سفارشات ایک ہفتے میں جمع کرائیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایک شخص دس سال جیل میں رہنے کے بعد کیس سے بری ہو جاتا ہے اس کا کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس نے کہاکہ تفتیشی افسر کو ایک کیس کی تفتیش کیلئے صرف 350 روپے ملتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر نے شواہد کو لاہور میں لیبارٹری میں لے کر جانا ہوتا ہے، پولیس رپورٹ کے مطابق تو یہ سسٹم خود کرپشن کی ترغیب دے رہا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ تفتیشی افسر کو کیس کی تفتیش کے لئے صرف 350 روپے دے کر سسٹم خود اسے کہتا ہے کہ کرپشن کرو۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ انصاف کی بڑی ناکامی ہے، ہماری ترجیحات ہی غلط ہیں، وی آئی پیز جو پولیس کو اپنے لئے استعمال کر رہے ہیں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ پولیس ایکٹ نافذالعمل ہے لیکن اس کے باوجود جو اسلام آباد میں ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم بطور معاشرہ اس سب کے ذمہ دار ہیں، ہائی پروفائل کیسز کو میڈیا پر ہائی لائٹ کیا جاتا ہے لیکن حقیقی مسائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ ہم نے کورونا وائرس سے بھی کچھ نہیں سیکھا، اگر انصاف اس ملک کے ترجیح ہوتی تو ہماری عدالتیں دوکانوں میں نہ ہوتیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری ترجیحات عام آدمی ہونی چاہیے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وفاق کو جواب جمع کرانے کے لئے دو ہفتوں کا وقت دیدیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دو ہفتوں تک مزید کتنے کیسز میں انصاف ناکام ہو چکا ہو گا، ایک ہفتے میں جواب جمع کرائیں، ڈپٹی کمشنر کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ پولیس رولز کے تحت ہر تھانے میں جا کر دیکھتے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں ہے پراسیکیوشن نہیں ہے، آپ نے بخشی خانہ دیکھا ہے کیا اس میں کوئی انسان رہ سکتا ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی۔