تعلیمی ماحول آلودگی کا شکار

تحریر : شاہ میر مسعود
پچھلے روز چاکر اعظم چوک میرعیسیٰ قومی پارک کے سامنے گرلز ماڈل ہائی سکول تربت کی طالبات نے احتجاجی مظاہرہ اور نعرہ بازی کی۔ ان کا ایک سادہ سا مطالبہ کہ ہمیں اسکول بس کے لئے پٹرول دی جائے جوکہ محکمہ اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ طالبات شکوہ کررہی تھیں کہ وہ جب بھی اپنے حق کی بات کرتے ہیں انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ وہ بدتمیز ہیں،کیا اپنے حق کیلئے اسکول انتظامیہ کی پاس آنا بدتمیز ی یا سکول قوانین کی خلاف ورزی ہے؟
اسکول کی بچیوں کے مسائل ہوں تو وہ کہاں جائیں۔مقامی انتظامیہ ان کے مسائل حل کرنے کی اہلیت اگر نہ رکھتی ہو تو وہ احتجاج کا راستہ نہ اپنائیں؟
ضلع کیچ کے چار ایم پی ایز ہیں جن میں تربت سٹی سے منتخب نمائندہ وزارت کے منصب پر بیٹھے ہیں ،جبکہ دو دیگر ایم پی ایز بھی وزارت کے عہدوں اور اختیارات رکھتے ہیں۔پھر بھی تربت سٹی کا پ±رانا اور سب سے بڑا گرلز اسکول کی بجٹ میں سالانہ بسون کے ایندھن اور دیگر مینٹیننس کیلئے صرف ایک لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔جن طالبات نے اسکول بس کی فیول کیلئے نعرہ بلند کئے ان نعروں کی آوازیں صوبائی وزرا کے گھروں تک سنائی دی لیکن مجال ہیکہ ان کا کوئی ایک نمائندہ آکر طالبات کو تسلی دے کہ وہ ان کے بس کی فیول کا مسئلہ حل کرینگے۔
کیچ اور خصوصا تربت کی تعلیمی ادارے گزشتہ چار سالوں سے مزید تباہی کی جانب گامزن ہیں۔کالج ہوں یا یونیورسٹی ،ہر جگہ طلبا وطالبات سراپا احتجاج ہیں اور نمائندے خواب خرگوش کی نیند سو رہے ہیں۔