لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکہ کرنے والے کے سہولت کار کون تھے؟

کراچی:پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر سیہون میں صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے میں معاونت کا جرم ثابت ہونے پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دو ملزمان کو 70، 70 بار سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

خیال رہے کہ 16 فروری 2017 کو سندھ کے صوفی بزرگ حضرت سید عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ملزمان کو لوگوں کو زخمی کرنے اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں بھی الگ الگ قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ایک ملزم نادر علی جاکھرانی عرف مرشد کو سندھ کی انسداد دہشت گردی پولیس نے نومبر 2017 میں گرفتار کیا تھا۔

پولیس کے مطابق نادر جکھرانی کو صوبہ بلوچستان سے موٹر سائیکل کے ذریعے ندی کے راستے سندھ میں داخل ہوتے وقت گرفتارکیا گیا تھا۔ نادر جکھرانی عرف مرشد کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم داعش سے ہے اور اسے سانحہ سیہون کا مرکزی سہولت کار قرار دیا گیا تھا۔

ملزم کا آبائی تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے بتایا جاتا ہے۔ نادر جکھرانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شمالی سندھ میں شدت پسند تنظیم ‘حفیظ بروہی گروپ’ کے ساتھ بھی کام کر چکا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق حفیظ بروہی گروپ اندرون سندھ دہشت گردی کی کئی کارروائیاں کر چکا ہے۔ دسمبر 2015 میں شکار پور کی امام بارگاہ پر تنظیم کے حملے میں 62 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تنظیم نے 2010 میں بھی شکار پور کی ایک امام بارگاہ کو نشانہ بنایا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حفیظ بروہی گروپ نے 2013 میں جیکب آباد میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیت سید حسین شاہ پر بھی حملہ کیا تھا۔

پولیس کی جانب سے عدالت میں سیہون خودکش بم دھماکہ کیس میں جمع کرائے گئے چالان کے مطابق درگاہ پر بم حملے کی منصوبہ بندی بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں کی گئی۔

ملزم نے اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے خودکش حملہ آور ابرار بروہی کو کشمور کے راستے سیہون پہنچایا تھا۔ نادر علی جکھرانی نے علاقے سے واقفیت کی بنا پر ساری کارروائی کی قیادت کی تھی۔

نادر جکھرانی نے پولیس کو تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ ملزمان نے درگاہ کے قریب کمرہ بک کرایا تھا اور پھر دھماکے سے ایک روز قبل خودکش حملہ آور کو درگاہ کی ریکی بھی کرائی گئی تھی۔

نادر جکھرانی نے خود کش حملہ آور کو وہ جگہ بھی دکھائی تھی جہاں جمعرات کو غیر معمولی رش کے دوران عقیدت مند دھمال ڈالتے ہیں۔

مذکورہ حملے میں خود کش حملہ آور نے عین اس وقت خود کو اُڑا لیا جب بڑی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے مزار کے احاطے میں دھمال ڈال رہے تھے۔ واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور 400 زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کے مطابق حملے کے بعد نادر جکھرانی عرف مرشد پنجاب منتقل ہو گیا تھا۔نادر جکھرانی کی گرفتاری کے بعد اس کی نشاندہی پر پولیس نے فرقان عرف فاروق نامی ایک اور شخص کو گرفتار کیا جس نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ (داعش) کے لیے کام کرتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسکالر تابش قیوم کے تحقیقی مقالے ‘داعش کے پاکستان میں قدم، حقیقت یا مفروضہ’ کا بھی حوالہ دیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ داعش صرف شام میں جنگ تک محدود نہیں بلکہ یہ قومی ریاست کے نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ تنظیم تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے اسلامی خلافت کا احیا چاہتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ چوں کہ داعش اپنے طے کردہ مقاصد کے لیے تشدد اور سفاک دہشت گردانہ کارروائیوں کو استعمال کرتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں اس کے اغراض و مقاصد کو بھی انہی متعین کردہ مقاصد کے پیرائے میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عدالت میں دوران سماعت ایک گواہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہوا کہ لال شہباز قلندر مزار پر خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں تین ہندو عقیدت مند بھی شامل تھے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حضرت لال شہباز قلندر کا مزار محبت، امن ، اتحاد اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی مضبوطی کی بھی علامت ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں سندھ سے لے کر کشمیر تک کے رہنے والے ہلاک اور زخمی ہوئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوردراز سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ لہذٰا یہ صرف ایک مزار نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے خودکش حملہ آور کی نشاندہی اور تحقیقات کے معیار پر پولیس افسران کی تعریف بھی کی۔

عدالت نے گواہوں کو فوری تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جن کی گواہی نے سہولت کاروں پر جرم ثابت ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

کیس میں صفی اللہ، عبدالستار، اعجاز بنگلزئی، ذوالقرنین بنگلزئی اور تنویر نامی ملزمان کو مفرور بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں