بلوچ قوم پرست سیاست میں خلا

تحریر: نصیر بلوچ
بلوچ سیاست میں چار بڑے نام نظر آتے ہیں، جن میں سردار عطااللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب اکبرخان بگٹی اور نواب خیر بخش مری شامل ہیں۔ ان رہنماؤں کی رحلت کے بعد کوئی ایسا رہنما منظر عام پر نہیں آیا جو حقیقت میں بلوچ قوم کی آواز بنا ہو۔ بلوچ سیاست تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔
بلوچستان کی قدآور شخصیت نواب اسلم رئیسانی کی جے یو آئی میں شمولیت سے بلوچستان ایک قوم پرست رہنما سے محروم ہوگیا ہے۔ نواب صاحب کو لوگ ان کے مزاحیہ اندازِ گفتگو سے جانتے اور پسند کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں کراچی کلفٹن دہلی کالونی میں رہائش پذیر تھا تو وہاں کے لوگ سیاست سے بے خبر اپنے حالات میں مست رہنے والے لوگ معلوم ہوئے۔ جب ایک فلٹر پانی والے اس ایریا کے خاص سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات جو مانے جاتے ہیں ان سے گفتگو ہوئی تو ان کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا نام تک معلوم نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے ایک دن باتوں باتوں میں نواب صاحب کا یہ مشہور زمانہ جملہ کہا کہ ”ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی“ میں نے کہا جناب آپکو معلوم ہے یہ جملہ کس نے کہا ہے؟ ہاں آپ نے سنا نہیں میں نے کہا بقول نواب اسلم رئیسانی کے، مجھے مسرت محسوس ہوئی اور میں نے دوبارہ ان سے پوچھا کیا آپکو معلوم ہے نواب اسلم رئیسانی کون ہیں؟ اور انکا تعلق کہاں سے ہے؟ ہاں کیوں نہیں نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کے ایک مایہ ناز سیاست دان ہیں۔ میرے لیے یہ کوئی حیران کن لمحہ نہیں تھا کہ ایک شخص جو بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا نام تک نہیں جانتا تھا وہ نواب صاحب سے اچھی خاصی شناسائی رکھتا ہے۔ دہلی کالونی کی اکثر آبادی مہاجر، سوداگران دہلی، کشمیری، سندھی، میمن، برہانز اور سرائیکی ہیں۔ نواب صاحب کی ہرجا مقبولیت ان کا مزاحیہ اندازِ گفتگو ہے۔
بلوچ قوم پرست سیاست میں ایک توانا آواز بی این پی مینگل تھی جس کی ساکھ کو اداروں نے ایک طرح سے ختم کیا ہے اور ان کی جڑیں اکھاڑی جارہی ہیں۔ اختر مینگل کو لاپتہ افراد کے کمیشن کا سربراہ مقرر کرکے ان کے سیاسی بیانیے کو ختم کیا جاچکا ہے چونکہ مینگل کی سیاست لاپتہ افراد پر قائم تھی جبکہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ مقرر ہونے کے بعد ان کے پاس لاپتہ افراد کا بیانیہ نہیں رہے گا۔ اختر مینگل عمران خان کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ میں سربراہ تھا لیکن اختیار میرے پاس نہیں تھے۔ انہیں یاد ہونا چاہیے کہ وہ حکومت میں شامل ان کے ایک مضبوط اتحادی ہیں۔ اس لیے مستقبل میں اختر مینگل کے پاس لاپتہ افراد کا بیانیہ دم توڑ دے گا۔ ایک بڑے منصوبے کے تحت اختر مینگل کے سیاسی بیانیے کو ختم کیا گیا ہے کہ آنے والے الیکشن میں وہ ایک مضبوط پارٹی بن کر نہ ابھرے چونکہ اختر مینگل کی کوشش ہے کہ ان کی پارٹی جنرل الیکشن جیت جائے اور کسی بھی وقت وہ اقتدار پر براجمان ہوجائیں۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاست میں نمایاں نام ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اختر مینگل ہیں ان میں اختر مینگل کی سیاسی ساکھ بلوچستان حکومت کے اتحاد اور ایک خاص منصوبے کے تحت ختم کی گئی ہے۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے خاطر میدان مارنے کے چکر میں ہیں۔
بلوچ قوم پرست سیاست میں ایک خلا ہے، جسے مولانا ہدایت الرحمن کی صورت میں لانچ کیا جارہا ہے۔ مولانا مقامی مسائل لیکر میدان میں اتر آئے ہیں اس لیے کم ہی لوگ جرأت کر پارہے ہیں کہ مولانا کی حقیقت کو آشکار کیا جائے، ہاں البتہ شروع میں اکثریت مولانا ہدایت الرحمن کو مسیحا گردان رہی تھی، ان حالات میں مولانا کو برا بھلا کہنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا چونکہ وہ مقامی مسائل کو لیے ایک مسیحا کا روپ دھار چکے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی سر زمین پر بلوچ قوم پرست لیڈر کیسے پیدا ہوں گے؟ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں ایک غیر موثر ”پروڈیکشن فیکٹری“ کی صورتحال اختیار کرگئے ہیں، جن سے کسی اچھے سیاسی رہنما پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رہی ہے۔ ہاں البتہ بلوچ طلبا تنظیموں سے توقع کی جاسکتی ہے جن کی سرگرمیوں سے مستقبل کے عظیم رہنما پیدا کرنے کی گنجائش ہے اور بلوچ قوم کی نگاہیں بھی طلبا تنظیموں پر ہیں۔