عام آدمی دیرینہ خواہش

اداریہ
عام آدمی گزشتہ 7دہائیوں سے ایک ہی خواہش دل میں بسائے اس صبح کے انتظار میں ہے جب ہر اخبارکی سرخی ہوگی:
”فلاں فلاں جاگیردار، صنعتکار اور بیوروکریٹ کو (سرکاری زمینوں پر قبضہ،ٹیکس چوری اور کک بیکس کے ذریعے)قومی خزانے کو لوٹنے اور غیر قانونی ذاتی اثاثے بنانے کے جرم میں عمرقید لوٹی ہوئی رقم کا 10گنا جرمانہ اور تمام ملکی و غیرملکی جائیداد معہ بینک اکاؤنٹس بحق سرکار ضبط کرنے کا تاریخی فیصلہ سنا دیاگیا“
یہ درست ہے اس انتہائی فیصلے کی ابتداء ایسی ہی انکوائری رپورٹس سے ہوتی ہے۔یہ بھی درست ہے کہ ماضی میں عدلیہ میں موجود (جسٹس ملک قیوم سے جسٹس ملک ارشد تک)متعددکالی بھیڑوں نے ان مجرموں کی جاں بخشی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مافیاز نے وہی کچھ کیا جو پاکستان میں آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ہماری معزز عدلیہ نے پہلی بار حکمراں جماعت کے سربراہ کو سسلین مافیا قرار دیا اور ان کے خلاف جاندار اور دکھائی دینے والی انکوائری کا حکم دیا۔کل تک جس نیب کے بارے میں کھلے الفاظ میں کہا جاتا تھا:”نیب کی کیا مجال کہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے“،اور وفاقی وزراء دن رات نیب کے پر اور ناخن کاٹنے کے دعوے کیا کرتے تھے جبکہ سپریم کورٹ نے نیب کو مردہ کہنے کے بعد اس کے زمین میں 6فٹ نیچے دفن ہونے کی تصدیق کی تھی۔ اس وقت عدالت عظمیٰ کے مذکورہ ریمارکس حسب حال تھے۔اس وقت کے چیئرمین نیب نے تمام توہین آمیز ریمارکس بڑے صبر و تحمل سے برداشت کئے اور اپنے ادارے کو بچانے میں کامیاب ہو گئے انہیں یقین تھا کہ ادارہ بچ گیا تو بدلے ہوئے حالات میں یہ ان لوگوں کی گردن سے سریا نکالنے میں ضرور کامیاب ہوگا۔آج دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت ساری گردنوں سے سریا نکل چکا ہے۔اب کوئی نہال ہاشمی ایڈووکیٹ معززججز کو یاد دلانے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ وہ نواز شریف کا کارکن ہے اورججز کے بچوں کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کر دے گا۔نہ ہی کوئی طلال چوہدری اپنے وزیر اعظم سے چیخ چیخ کر درخواست کر سکتا ہے کہ انہیں نکال باہر کرو۔ سب نے بچوں کا واسطہ دے کر معافی مانگ لی ہے۔لہجے میں نرمی اور دھیما پن آچکاہے لگتا ہے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ وہ سب دھیرے دھیرے ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جیسے پانامہ لیکس کے تمام کردارآج کل گمنام زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان لاڈلوں کو گزشتہ چار دہائیوں میں گبروجوان بننے کے بہترین مواقع میسر آئے۔لاڈلے بچوں کی طرح انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو لاڈلے بچے کرتے ہیں لیکن پانامہ لیکس منظر عام پر آنے کے بعد وہ ہوا کا رخ نہیں سمجھ سکے۔انہیں معلوم نہیں ہو سکا کہ اب چوری کھلانے والے مالک کو ان کی ٹیں ٹیں ناگوار گزرتی ہے۔وہ طویل عرصہ تک حکمران رہنے کے باوجود یہ نہ سمجھ سکے کہ پانامہ لیکس منظر عام پر لانے کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟یہی سہو آج انہیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ چاروں جانب سنّاٹا ہے ایک جانب کورونا کا خوف ہے اور دوسری جانب گرفتاری کا ڈر ہے۔
آج ملکی معیشت لاڈلوں کے ناز اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔کوئی مانے یا نہ مانے ملک دیوالیہ ڈیکلیئر کئے جانے کے قریب پہنچ چکا تھا۔روایتی راستے سے ہٹ کر قرضے لئے گئے۔قومی اسمبلی کے فلور پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ یہ قرضے ہمارے وزیراعظم کونہیں بلکہ ہمارے سپہ سالار کو دیئے گئے ہیں ان کے فوراً بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرضہ ایک منظم ادارے کو دیا گیا ہے۔سیاست کے نشیب و فراز پرکھنے والے اسی روز سمجھ گئے تھے کہ اب فیصلے سیاست دانوں کی مرضی کی بجائے ملک کے معاشی تقاضے کیا کریں گے۔عظیم سیاسی مدبرانقلابِ روس کے بانی ولادی میر لینن بہت پہلے کہہ چکے ہیں:

اپنا تبصرہ بھیجیں