عدلیہ نے نوٹس لے لیا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی پارٹیاں اور مقتدرہ معیشت کی بہتری اور استحکام کو پہلی ترجیح سمجھتے اور بار بار آئی ایم ایف سے قرض لینے کی نوبت نہ آتی۔لیکن بدقسمتی سے ایسانہیں ہو سکا،پاکستان 22ویں مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے آج کل مصروف ہے۔واضح رہے آئی ایم ایف خود چل کر کسی ملک کے پاس نہیں جاتا۔ممکن ہے اپنے کارندوں کا ایک جال تیار کر رکھا اور ان کی مدد سے ایسے تمام ملکوں میں معاشی بدحالی پیدا کرتاہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں یا تھے۔پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے۔پاکستان میں پچاس سال تک ایک ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔جبکہ بھارت نے اسی عرصے میں سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرلئے اور آج پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ انسان، جانور اور پودے یکساں طور پرپانی کی عدم دستیابی کاشکار ہیں، موذی امراض میں مبتلاء ہیں۔ ہیضہ کی وباء نے ہزاروں پاکستانیوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔آلودہ پانی ہیضے کا بنیادی سبب ہے۔ زراعت تباہ ہو چکی ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجودلاکھوں ٹن گندم ہر سال دوسرے ملکوں سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ امریکہ سے دوستی کی نشانی امریکی گندم ہے جو اونٹوں کے گلے میں ”دوست زندہ باد“کے کارڈ آویزاں کرکے کراچی کی بندرگاہ سے شہر کے گوداموں تک لے جائی جاتی تھی۔یاد رہے ان دنوں کراچی میں مال برداری کا کام اونٹ گاڑیوں سے لیا جاتا تھا۔بشیر ساربان سے امریکی صدر نے نہ صرف ہاتھ ملایا تھا بلکہ اسے امریکہ بلا کر اس کی عزت افزائی بھی کی تھی۔آج کل اونٹ گاڑی کی جگہ تیز رفتار ٹرنسپورٹ نے لے لی ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ امریکہ جس ملک سے دوستی کرتا ہے اس کی معیشت ہمیشہ ابتر رہتی ہے۔صنعتی پسماندگی اس ملک کا مقدر بن جاتی ہے۔عوام گندم کے دانے دانے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔پاکستان بھی ان دوست ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان کا عام آدمی اس بھید کو جان گیا ہے کہ 75سال میں پاکستان کی معیشت اتنی بری حالت میں کیوں ہے؟یہ آگہی اس نے اپنے کچن کی درسگاہ سے حاصل کی ہے، کچن کا چولھا اس کا استاد ہے، جیسے ہی چولھا مہینے کے آخری ہفتے میں جلنے کے قابل نہیں رہتاعام آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی تنخواہ کی قوت خرید اتنے فیصد کم ہو گئی ہے۔آٹا،سبزی، دالیں اور دیگر اشیائے خوردنی مہنگی ہونے کا سبب پیٹرول، ڈیزل،گیس اوربجلی کی قیمتوں اضافہ ہے۔ سادا سا اصول ہے پیداواری اخراجات میں اضافہ نہ روکا جائے تو عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان آج اگر گندم، دالیں، کھانے کا تیل، دوسرے ملکوں سے خریدنے پر مجبور ہے تو حکمرانوں نے زرعی ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں غفلت کیوں برتی۔ہمارے دودھ دینے والے جانور دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کے جانوروں کے مقابلے میں کم دودھ کیوں دیتے ہیں؟ ہماری زمین زرخیز ہونے کے باوجود کم اناج کیوں اگاتی ہے؟زراعت کے جدید طریقے پاکستان میں رائج نہ کرنے کے ذمہ دار کون ہیں؟ڈرپ اریگیشن کے ذریعے پانی کی قلت کا ازالہ کیوں نہیں کیا گیا؟اوسط درجے کے کسانوں کے مسائل دور کرنے میں کوتاہی کیوں برتی گئی؟75سال ایک لمبا عرصہ ہے، اسے ضائع کرنے والے کون لوگ ہیں؟ہمارے بعض سیاست دان کچھ عرصہ پہلے تک صحافیوں سے یہ سوال پوچھا کرتے تھے:”پیٹرول پیدا کرنے والے ملکوں میں شہریوں کو سستا پیٹرول فراہم کیا جاتا ہے تو پاکستان گندم پیدا کرنے والا ملک ہے یہاں گندم سستی کیوں دستیاب نہیں؟“،شاید اب یہ سوال سیاستدانوں کے لئے بوجوہ غیر اہم ہو گیا ہے۔اب وہ اپنے آبائی گھروں میں نہیں رہتے، انہوں نے محلات تعمیر کر لئے ہیں، اورمنقش دروازوں پر مسلح پہریدار بٹھادیئے گئے ہیں۔عام آدمی سے ماضی جیسا رابطہ برقرار نہیں رہا۔الیکشن جیتنے کے جدید فارمولے سیاستدانوں کی دسترس میں ہیں۔ ایک ووٹر 70بار ووٹ ڈالتا ہے اور الیکشن کمیشن اسے روک نہیں سکتا۔مردوں کے ووٹ کاسٹ ہو جاتے ہیں،قانون آنکھیں بند رکھتا ہے۔نادرا کے افسران اور اہلکاربااثر امیدوار کے گھر جاکر ہزاروں جعلی(اور اصلی) شناختی کارڈنہ صرف بناتے ہیں بلکہ ووٹرز کے حوالے نہیں کرتے، امیدوار کے سپرد کرتے ہیں تاکہ ووٹر اپنی مرضی سے امیدوار کو ووٹ نہ دے سکے۔ماضی میں پولنگ سے پہلے ہی دھاندلی کا فول پروف بندوبست کیا جاتارہا ہے۔ اب دھیرے دھیرے سیاست پارلیمنٹ سے نکل کر عدالت کے کمرے میں منتقل ہوچکی ہیں۔واضح رہے کہ عدلیہ صرف انتخابی عمل کا جائزہ نہیں لے رہی،وہ انتخابی دھاندلی کا سد باب بھی کر رہی ہے۔اس ضمن میں مناسب فیصلے بھی سامنے آرہے ہیں جو انتخابی اخلاقیات کی پابندی کو یقینی بنائیں گے۔ عدالت ملکی سیاسی اور معاشی بدحالی کو دیکھتے ہوئے ماضی کے مقابلے میں خاصی باریک بینی سے معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔قانون میں موجود ہر قسم کا ابہام دور کرنے
میں زیادہ سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔رویئے کی اس تبدیلی کا واضح مظہر آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح اور اس کے بعد پیدا ہونے والے سوالات پر مزید سماعت ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر جاری ہے۔ پنجاب حکومت بعض حوالوں سے اس تشریح کی مزید وضاحت چاہتی ہے، اچھا ہے کہ اس معاملے کو ہر قسم کے ابہام سے پاک کر دیا جائے۔تاکہ ”لوٹا کریسی“ کی لعنت سے چھٹکارا ملے۔سیاست میں اخلاقی اقدار کی پاسداری نظر آئے۔پارلیمنٹ کومٹھی بھرجانے پہچانے مفاد پرست اراکین کی بلیک میلنگ سے نجات مل سکے۔فضاء کی تبدیلی ایک ثبوت یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے
کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک مطلوب تعداد پوری نہ ہونے کے باعث پیش ہی نہ ہو سکی۔ گویااراکین اسمبلی عدالتی فیصلوں کے بعد ممکنہ حد تک پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی سے کترانے لگے ہیں،با الفاظِ دیگر اخلاقی بہتری کا آغاز ہوگیا ہے۔بسمِ اللہ ہوجائے اورقانون ساز ادارے کے اراکین اچھے برے کی تمیز کرنا شروع کردیں تو اسے تازہ ہوا کا خوشگوار جھونکا سمجھنا چاہیئے۔حالانکہ ابھی 75سا ل کی منفی روش کا گردوغبار تہہ نشین نہیں ہوا، اس عمل میں تھوڑا وقت لگے گا،لیکن یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ منفی سوچ کو پاکستان میں پسپائی پر مجبور ہونا پڑے گا۔حالات کے تیور دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے گرد و غبار کے تہہ نشین ہونے میں زیادہ وقت نہیں صرف ہوگا۔معاشی بدحالی نے عوام کودیوار سے لگا دیا ہے،ان کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے،عوام اب انتظار کرنے کے موڈ میں نہیں،فوری اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔