وزیراعظم شہباز شریف کا قوم سے پہلا خطاب
وزیر اعظم، شہباز شریف نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ قوم نے جس ذمہ داری کے لئے مجھے منتخب کیاوہ میرے لئے اعزاز ہے۔وزیر اعظم کا منصب سنبھالنا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں۔اپنے قائد نواز شریف اور اتحادی جماعتوں کا شکر گزار ہوں۔پاکستان کے عوام نے مطالبہ کیا کہ اس نااہل اور کرپٹ حکومت سے ان کی فوری جان چھڑائی جائے۔ اپوزیشن (مسلم لیگ نون اور دیگر اتحادی جماعتوں) نے عوام کی آواز پر لبیک کہا۔ وزیر اعظم نے کہا:”ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا،ایسی تباہی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی جو چار سال میں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان بچانے کا چیلنج قبول کیا۔ملک کو بہتری کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے سخت محنت درکار ہوگی“۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا (سابق)حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طریقے سے تبدیل کیا گیا ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں مل کر امانت اور دیانت کے ساتھ شبانہ روز محنت کریں گے، میں اور میری کابینہ اپنے ہر فیصلے کے لئے عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوگی،میثاق معیشت پر اتفاق کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے“۔وزیراعظم نے مزید کہا:”ہم نے دل پر پتھر باندھ کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے،یہ فیصلہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے، دنیا میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں“۔سیاسی غیر یقینی کے حوالے سے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے پیغام دیا ہے کہ آئیں سب مل کر پاکستان کو ایسا ملک بنائیں جس میں اختلاف رائے کو دشمنی نہ سمجھا جائے، جہاں تنقید کو حوصلے سے برداشت کیا جائے۔جہاں قومی خدمت ہی سیاست کا اصل معیار ہو۔درسگاہیں کھل جائیں، نفرت گاہوں کے در بند ہوجائیں، جہاں عورتوں کے حقوق مقدم، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، جہاں مزدوراور کسان خوش حال ہوں، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو،رزق کی فروانی اور آسانی ہو، جہاں کا عدل باعث فخر ہو، جہاں ظلم کا خاتمہ ہوجائے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران امن و امان کے مسئلے پر اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان کی ازسرنو بحالی شروع کر دی ہے۔قوم سے خطاب میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے غریب متأثرین کی مدد کیلئے 2ہزار روپے کے خصوصی پیکج کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔واضح رہے حکومتی دعویٰ ہے کہ یہ امدادی رقم بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے علاوہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل اور آئندہ انتخابات کا جون میں (6دن میں) اعلان کرنے کے مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی کے دباؤ میں آکر ایسا نہیں کیا جائے گا،حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کو مشکل حالات میں حکومت ملی ہے،لیکن اس مقصدکو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی منظوری سمیت پونے چار سال ہر محاذ پرمسلسل تگ و دو کی تھی۔گویا وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران مانا کہ ایوان میں عددی اقلیت کسی خودکار طریقے سے تبدیل نہیں ہوئی۔ایک جہد مسلسل کا نتیجہ ہے۔انہوں نے بجا طور پر درست کہا ہے،جمہوریت میں کسی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی ضمانت نہیں دی گئی، جس دنکوئی وزیر اعظم ایوان میں اکثریت کی حمایت کھو دیتا ہے،اسے اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنا پڑتاہے۔موجودہ صورت حال اس سے قدرے مختلف ہے،اس لئے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے 123ارکان استعفے ڈپٹی اسپیکر کے حوالے کر کے ایوان سے چلے گئے تھے(یاد رہے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف اس وقت کی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرا رکھی تھی)،تا حال ایوان میں داخل نہیں ہوئے۔علاوہ ازیں اس دوران سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح کردی ہے کہ جو رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے اس کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔مذکورہ تشریح کے بعد باپ کے چار ارکان کے ووٹ مشکوک دکھائی دیتے ہیں۔چنانچہ مستقبل کی رائے شماری میں شمار نہ کئے جانے کا امکان موجود ہے۔گویا جس شاخ پہ حکومتی آشیانہ ہے وہ اس مرتبہ عدالتی تشریح کے بعد مضبوط نہیں رہی، نازک ہے۔اس حقیقت کا علم وزیر اعظم اور ان کی اتحادی جماعتوں کو بخوبی ہے، سب یا بیشتر نے اپنی عمر کا بڑا حصہ سیاست کرتے گزارا ہے، سرد و گرم چشیدہ ہیں، ہمہ اقسام نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں، اڑتی چڑیا کے پر گننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے،مذکورہ عدالتی فیصلے نے سیاسی تقاضے تبدیل کر دیئے ہیں۔ جمہوریت آج اتنی آزاد نہیں رہی جتنی اس فیصلے سے پہلے تھی۔اس کا واضح ثبوت الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے 25ارکان بارے جاری کردہ نااہلی کا نوٹیفکیشن ہے۔موجودہ حکومت کھیلنے کے لئے وہ میدان نہیں ملا جو اس عدالتی فیصلے سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ پارٹی پالیسی سے بغاوت کا دروازہ فی الحال بند نظر آتا ہے۔اس تناظر میں افواہیں جنم لیتی ہیں اور سینہ بسینہ سفر طے کرتی ہیں۔افوا ہوں کو جدید ٹیکنالوجی کے پرلگ گئے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے قد آورسربراہ خان عبدالولی خان کہا کرتے تھے:
”جتنی دیر میں سچ جوتے پہن رہا ہوتا ہے، جھوٹ سارے شہر کا چکر لگالیتا ہے“۔
یاد رہے ان دنوں فون کی سہولت بھی بہت کم میسر تھی، فون کا کنکشن ملنے میں برسوں لگ جایا کرتے تھے۔ سینئر شہری جانتے ہیں۔آج سوشل میڈیا برق رفتار ہے، اور جو چاہے کہنے کی آزادی بھی اسے حاصل ہے۔اس ضمن میں وی لاگرز کی ریٹنگ ایک بڑا ثبوت ہے۔موبائل فون ہر نوجوان کے ہاتھ میں ہے۔نیٹ سروس عارضی طور پر مخصوص علاقوں میں بند رکھی جا سکتی ہے مگر طویل عرصے معطلی ممکن نہیں،اس لئے کہ کمپیوٹر آج تمام کاروباری سرگرمیوں کی ضرورت بن چکا ہے۔سارے امور آن لائن انجام دیئے جا رہے ہیں۔پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سانس لینے لگا ہے۔ہاتھ کا کام محدود اور کمپیوٹر کا محتاج ہے۔اس دور میں حقائق عوام سے چھپانا ممکن نہیں رہا، خبر سچہ ہو یا جھوٹی،عام آدمی تک پہنچ جاتی ہے۔پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی اس جدت کا ادراک ہونا چاہیے۔انہیں 1980اورنوے کی دہائی سے باہر نکلنا ہوگا۔