تربت، سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ، اعلیٰ سطح تحقیقات کروائی جائیں

اداریہ

تربت میں گزشتہ روز سی ٹی ڈی کی جانب سے 4 لاشیں پہنچائی گئیں اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں مقابلے میں مارا گیا ہے اور ان سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے جبکہ لواحقین کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک شخص پہلے سے فورسز نے گھر سے اٹھایا تھا، حال ہی میں عدالت میں پیش کرکے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا، لواحقین نے لاش کے ہمراہ دھرنا بھی دے دیا ہے۔ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ بلوچستان میں شہریوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے اور بعد میں ان کی لاشیں ملتی ہیں، یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے، انٹیلی جینس ادارے اور عدالتیں اس حوالے سے تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، تمام صوبوں کی سٹی کورٹ، ہائی کورٹ حتیٰ کہ سپریم کورٹ تک میں اس حوالے سے مقدمات اور درخواستیں زیر التوا ہیں۔ لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ کا اصولی اور منطقی مطالبہ ہے کہ اگر ان کے رشتے دار کسی بھی جرم میں شریک ہیں یا مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کرکے انہیں سزا دلوائی جائے نہ کہ جس خفیہ ایجنسی کا دل چاہے وہ کسی بھی شہری کو اغوا کرلے۔ ملکی ایجنسیاں اور ریاستی ادارے اس حوالے سے کچھ بھی کہیں یا خاموشی اختیار کیے رہیں لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کوئی بھی گروہ شہریوں کو اغوا نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کررہا ہے تو پھر خفیہ ایجنسیوں، انٹیلی جینس اداروں اور امن و امان قائم کرنے کے ذمے دار اداروں کے تمام اہلکاروں کو فارغ کردینا چاہیے۔ پولیس اور دیگر اداروں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی گروہ شہریوں کو مسلسل اغوا کرنے میں مصروف ہے تو ان اہلکاروں اور افسران پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کیوں ضائع کیے جائیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کے ان ہی مقابلوں پر سوال کیوں اٹھتا ہے جو وہ کسی ایسے مقام پر کرتے ہیں جہاں انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، ورنہ پولیس کی جانب سے شہروں میں اکثر ڈاکوﺅں سے مقابلے ہوتے ہیں، شہری اس کی ویڈیو بھی بناتے ہیں آج تک ان مقابلوں پر کوئی سوال نہیں اٹھا؟ دوسری بات یہ عقل سے ماورا ہے کہ کوئی بھی مجرم خود کسی کونے یا سنسان جگہ پر نہیں جاتا، کیونکہ مجرموں کو معلوم ہے کہ ایسی جگہوں پر ہر شخص ہی مشکوک نظر آتا ہے، مجرموں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ گنجان آباد علاقوں میں رہیں تاکہ آبادی کے درمیان ان کی شناخت مشکل ہو، تو پھر یہ مبینہ پولیس مقابلے ایسی سنسان جگہوں پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ یہ بھی طے ہے کہ اس سارے عمل میں محض اہلکار یا چھوٹا موٹا افسر ملوث نہیں ہوتا، یہ بڑے اعلیٰ پیمانے پر فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس پر عملدرآمد معمولی اہلکاروں اور افسران سے کرایا جاتا ہے، کیونکہ اگر کوئی اہلکار یا معمولی افسر اپنے طور پر ایسا کرے تو اس کے خلاف فوری کارروائی ہوجائے، لیکن ان مبینہ مقابلوں میں ملوث پولیس اہلکاروں اور افسران کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوسکی۔
پاکستانی عدالتوں کا یہ عالم ہے کہ وہ محض نوٹس اور بیانات کی حد تک محدود کردی گئی ہیں، ججوں کے اس حوالے سے ہزاروں بیانات ہیں کہ اب اگر فلاں کو پیش نہیں کیا گیا تو یہ کردیا جائے گا اور وہ کردیا جائے گا مگر عملی طور پر آج تک کسی ایک ریاستی ادارے کے اہلکار و افسر کو سزا نہیں ہوئی، ججوں کو بھی اپنے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، وہ عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھے ہیں یا محض وقت گزاری کے لیے، اگر انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے، ججوں پر کوئی دباﺅ ڈالتا ہے اور تاخیری حربے استعمال کرتا ہے اور انہیں کام نہیں کرنے دے رہا تو ججوں کو مستعفی ہوجانا چاہیے اور وجوہات عوام کے سامنے رکھنی چاہئیں کہ ہمیں انصاف فراہم کرنے نہیں دیا جارہا تاکہ 70 برسوں سے جاری اس تماشے کے اصل کرداروں کی تو نشاندہی ہو۔
ریاستی اداروں کو بھی اب تحمل سے اپنی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری جبر و تشدد، شہریوں کو لاپتہ کرنے اور متعدد ایسے اقدامات سے کون سے نتائج حاصل کیے گئے، اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا، یا عوام میں ملکی اداروں کے خلاف غصہ اور نفرت پیدا ہوئی۔ مقتدر حلقوں کو 70 برسوں کے اپنے کردار اور نتائج کا موازنہ کرنا ہوگا، اس کے علاوہ پاکستان جیسے حالات کا شکار دیگر ممالک کی بھی تاریخ پڑھنی ہوگی تاکہ صحیح فیصلے کیے جاسکیں۔ محض چند افراد کے مفادات کے لیے 24 کروڑ عوام کو بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ لہذا ان مبینہ مقابلوں کے لیے اعلیٰ سطح کمیشن بنایا جائے اور مکمل اختیارات دے کر وسیع پیمانے پر تحقیقات کروائی جائیں تاکہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں