پہلے آئی ایم ایف کی شرط پرعمل‘بعد میں قرض کی قسط

حکومت کی جانب سے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے،یہ مشکل فیصلہ بجٹ کا حصہ بناکر مئی کا آخری ہفتہ اور پورا جون عوام کو اضافی بوجھ سے بچا لیا جائے۔مگر آئی ایم ایف نے یہ فارمولہ نہیں مانا،چنانچہ شہباز شریف کی حکومت کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔معیشت پراس تاخیر کے منفی اثرات مرتب ہوئے، ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا،اوراسٹاک ایکسچینج کا فیصد انڈیکس نیچے آگیا،اس کے ساتھ ہی زرمبادلہ کے ذخائرکم ہونے کی بناء پر دیوالیہ ہونے کے خدشات سر پر منڈلانے لگے۔ابترصورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہی رہ گیا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرط مان لی جائے۔عوام کی ناراضگی کا سامنا کیا جائے اورپیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 30روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا۔اس کے معنے یہ ہوئے کہ جس شہری کو اپنے گھر سے دفتر یا کاروباری مرکز تک سفر کے ایک لیٹر یومیہ پیٹرول درکار ہوتا ہے، اس پر900روپے کا اضافی بوجھ آگیا ہے،کاراستعمال کرنے والے اسی تناسب سے اضافی اخراجات برداشت کریں گے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھیں گی۔ ٹرانسپورٹرز نے ابھی سے کرائے بڑھا دیئے ہیں۔ٹیکسی اور رکشہ والے بھی مہنگے پیٹرول کوکرایہ میں اضافے کی وجہ بنائیں گے اور یہ وجہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے، کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔پاکستان کے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا دلانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو خود کفیل بنایاجائے۔ہمسایہ ممالک سے جو اشیاء(پیٹرول، گیس، گندم وغیرہ) سستی مل سکتی ہیں،خریدیں۔ایران سے ہمارے معاہدے موجود ہیں،معاہدوں میں درج مدت کئی دہائیاں پہلے ختم ہو چکی ہے، اگر ایران عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف معاہدہ کی خلاف ورزی کامقدمہ دائر کردے تو پاکستان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت بھاری جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ایران حکومت کی برادرانہ شفقت اور محبت ہے کہ اس نے تاحال عالمی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے سنجیدگی سے حکمت عملی وضع کریں،پاکستان کسی ملک کی کالونی نہیں کہ اپنی جیب سے رقم اداکرکے اپنی پسند کی اور ضرورت کی اشیاء نہ خرید سکیں۔ایران سے سستی گیس اور بجلی نہ خریدے کیونکہ امریکہ ایران کو کسی نئے رضا شاہ پہلوی کے ذریعے محکوم بنانا چاہتا ہے۔واضح رہے امریکہ نے عراق کے صدر صدام حسین کے ذریعے 8سال جنگ کی تاکہ ایران میں آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں قائم عوامی حکومت کومعاشی مسائل کی دلدل میں دھکیل کرکمزور کرے اور ایک بار پھر اپنی کٹھ پتلی حکومت لائے۔ایران اور افغانستان کے غیور اور بہادر عوام نے امریکی عزائم کو ناکام بنایا۔اگرایک لمحے کے لئے مان لیا جائے کہ شہباز شریف کی قیادت میں عوام کی خواہشات اور مرضی کے مطابق آئینی اور قانونی حکومت ہے تو اے چاہیئے کہ بھارتی حکومت کی طرح روس سے 30فیصد سستی گندم اور گیس خریدے، سستا پیٹرول اور ڈیزل خریدے تاکہ 30فیصد زر مبادلہ ملک کے واجب الادا قرض کی اقساط ادا کرنے کے لئے استعمال ہو سکے۔یاد رہے پاکستا ن6ارب ڈالر سے زائد کی پیٹرولیم مصنوعات در آمد کرتا ہے،سستی درآمدات سے ہمیں 2ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی، ہم دیوالیہ ہونے سے بچ سکتے ہیں۔تو بھارتی حکومت کی طرح شہباز شریف حکومت بھی یہ محفوظ اور آسان تجارتی راستہ اختیارکرے۔اس راہ میں کسی ملک کی عاید کردہ کوئی ناجائزشرط تسلیم نہ کرے۔ہرناروا رکاوٹ کو دور کرے۔ اپنے عوام کو ظالم اور کمر توڑ مہنگائی سے نجات دلائے۔عام آدمی حیران ہے کہ شہباز شریف حکومت عالمی منڈی سے سستی اشیاء خریدنے سے کیوں انکاری ہے؟ اپنے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے جو کام بھارت کرسکتا ہے وہی کام پاکستانی عوام کے مفاد میں پاکستا ن کو کرنا چاہیئے۔ اگر بھارت گزشتہ پچاس سال میں سینکڑوں ڈیم تعمیر کر سکتا ہے تو یہی کام پاکستان م،یں کیوں نہیں کیا گیا؟عام آدمی شہباز شریف حکومت سے توقع رکھتا ہے کہ اس تأثر کو ختم کرے کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہے عوام کے مفاد میں آزاد خارجہ پالیسی کااعلان نہیں کر سکتی،قوم سے خطاب کے دوران جرأت مندانہ اعلان کرے کہ ہم جہاں سے سستی گیس، بجلی، گندم اور سستا پیٹرول عوام کو ملنا چاہیئے،حکومت کسی ملکی کی خوشنودی کے لئے مہنگی اشیاء نہیں خریدے گی۔یہ اعلان موجودہ غبارے سے ساری ہوا نکال دے گا۔عوام کسی بہکائے میں نہیں آئیں گے۔قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آج 1980کی دہائی نہیں،دنیا مئی2022کے آخری ایام سے گزر رہی ہے۔جدید مواصلاتی ذرائع اور ٹیکنالوجی سے لیس عوام کو عالمی حالات سے بے خبر نہ سمجھا جائے۔اپوزیشن کے پاس صرف یہی ایک نکتہ ہے، دانشمندی کا تقاضہ ہے اس غبارے کو سوئی چبھوئی جائے۔عوام کو یقین دلایا جائے کہ شہباز حکومت عوام کو مہنگائی کے پنجے سے نکالنے کے لئے تمام ممکنہ فیصلے کر سکتی ہے۔لیکن اگر شہباز شریف اور ان کے حمایتی یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی میں بھارت جیسی تبدیلی لائے بغیر عوام کی حمایت حاصل کر لیں گے تو انہیں ایک سے زائد مرتبہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔واضح رہے وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، درست اور جرأت مندانہ فیصلے بروقت نہ کئے جائیں تو ان کی افادیت کم ہو جاتی ہے بلکہ صفر ہو جاتی ہے۔عوامی موڈ کو 1980والی عینک سے نہ جانچا ہے۔عوامی موڈ کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں کسی غلطی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوام کسی ملک کی بنیادی قوت ہوتے ہیں۔عوام نے امریکی رعونت کو افغانستان اور ایران میں مسترد کر دیا ہے۔عراق،لیبیاء اور شام کی تباہی جدید دور کا تازہ واقعہ ہے۔صدر صدام حسین تو امریکہ کا دوست تھا، لیبیاء کے صدر قذافی بھی امریکہ مخالف کسی محاذ آرائی کا حصہ نہیں تھے، اپنے
قدرتی وسائل اپنے عوام کی امانت سمجھتے تھے، ان کا مؤقف ہر لحاظ سے جائز اور منصفانہ تھا،لیکن افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔پاکستان کے عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو ابھی نہیں بھولے۔پاکستان کے عوام کو خدشہ لاحق ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں 1977،1979 اور 2007 کے تکلیف دہ مناظر دہرانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف ایک جہاندیدہ اور معاملہ فہم شخصیت ہیں، صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیں، عوامی خدشات کو بھی سامنے رکھیں۔یاد رہے پاکستان کسی نئے سانحے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔