بحران کا حل نکالناہوگا
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان آج کل شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔معاشی دقیق اصطلاحات سے بچتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بحران جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا 2008میں خاتمہ ہوتے وقت 14سال قبل بھی موجودتھا، نہ ہوتاتو پی پی پی کی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑتا۔ پھر پانچ سال بعد 2013میں یہی معاشی بحران مسلم لیگ نون کو ورثہ میں ملا۔دونوں جماعتوں نے اپنی فہم و فراست کے مطابق معیشت کو سدھارنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ مل سکی۔چنانچہ2018میں ملک کا اقتدار دونوں روایتی پارٹیوں کی بجائے ایک نسبتاً اجنبی اور نئی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کو سونپا گیا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اکثر کہا کرتے تھے:”میں خودکشی کرلوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا“۔اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں محسوس ہواکہ عالمی معاشی قوتوں نے دنیا کو اپنا معاشی غلام بنانے کے لئے ”انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ“ نامی ادارہ قائم کر رکھا ہے،اور قانون بنا رکھا ہے کہ معاشی بحران میں مبتلاء جو ملک آئی ایم کی شرائط نہیں مانے گا اسے دنیا کا کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ(بینک)قرض نہیں دے گا۔شاید پاکستانی سیاستدانوں اور عوام کو بھی پہلی بار اس قانون کا علم ہوا۔ورنہ ساری سیاسی پارٹیوں کے سربراہ عمران خان کو آئی ایم ایف سے قرض لیتے وقت خود کشی کا طعنہ نہ دیتے۔پاکستانی معیشت کا کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کا محتاج رہنا افسوسناک مگر زندہ حقیقت ہے، اس مجبوری اور بے بسی پر کسی ایک سیاسی پارٹی کو تنہا ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔البتہ ہر پارٹی اپنی کارکردگی کے حوالے میں عوام کی عدالت میں جواب دہ ہونی چاہیئے۔پی پی پی عوام کو بتائے کہ اس نے 2008سے2013کے دوران معیشت کو کس حد تک بہتر بنایا؟پرویز مشرف سے انہیں معیشت کس حالت میں ملی تھی؟ مسلم لیگ نون کی قیادت بھی دشنام طرازی سے باہر نکلے اور عوام کے سامنے اپنی 2013 سے2018کے دوران حاصل کردہ معاشی کامیابیوں کا گوشوارہ پیش کرے۔عوام کے سامنے حقائق رکھے جائیں۔ عالمی معاشی رپورٹس پیش کی جائیں۔عوام سے کوئی بات نہ چھپائی جائے۔اس لئے کہ آئی ایم ایف اوردیگر اداروں یا ملکوں سے لئے گئے قرضے کی ادائیگی اول و آخر عوام کو اپنی جیب سے کرنا ہوتی ہے۔کسی سیاسی پارٹی کو قرض نہیں دیا جاتا، یہ ملک اور عوام کی امانت سمجھا جانا چاہیئے۔لئے جانے والے قرض کاایک ایک روپیہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر خرچ ہونا چاہیئے۔ہر پارٹی جاتے وقت تحریر طور پر اخراجات کی تفصیل بتانے کی پابند ہونی چاہیئے۔پاکستان میں ایسے شرمناک واقعات ریکارڈ پر ہیں جہاں حاجیوں سے بھی بھاری رقوم وصول کی جاتی رہی ہیں۔ ایسے اسکینڈلزعوام کو یاد ہیں۔موجودہ حج کے ذمہ دار کوشش کریں کہ ان کا دامن مالیاتی آلودگی سے داغدار نہ ہو۔محکمہ مواصلات اور محکمہ خزانہ کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ بدنام ہے، انہیں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ وزارت سنبھالنے سے پہلے کے بیانات بھی یادرکھیں تاکہ موجودہ اقدامات کے بارے عوام کو قائل کرنے میں انہیں دشواری نہ ہو۔سیانے کہہ گئے ہیں:وقت کرتا ہے پرورش برسوں؛ حادثہ یکدم نہیں ہوتا!!! موجودہ معاشی اور سیاسی بحران بھی برسوں کی غفلت اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔گزشتہ چار سال کی پیداوار نہیں۔2018کے عالمی معاشی اعدادوشمار اور اشاریوں کے ساتھ حالیہ اعدادوشماراور اشاریوں کا دیانت دارانہ موازنہ کیا جائے۔یاد رہے آئی ایم ایف سے زیادہ قرض حاصل کرنا کوئی کمال نہیں، نہ ہی معاشی بحران کا دیرپا حل ہے۔یہ رویہ عوام کو پریشانیوں کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کی مدد سے ملک کو خود کفالت کی منزل تک پہنچانے میں مدد ملے۔لیا گیا قرض ایسے منصوبوں پر خرچ کیا جائے جو آمدنی کا ذریعہ بنیں۔ سری لنکا کا حشر دیکھ لیں۔سیاحت کا شعبہ کورونا کی لپیٹ میں آتے ہی معیشت ڈھیر ہوگئی۔ماہرین معیشت کی اکثریت پاکستان کودیوالیہ ہونے کے قریب جاتا دیکھ رہی ہے۔واضح رہے صرف دعاؤں سے یہ خدشات نہیں ٹلیں گے، دانشمندانہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ خطرہ پاکستانی عوام کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔عوام جانتے ہیں قدرت نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ عوام ببے خبرنہیں، معاشی حقائق سے واقف ہیں۔نجی محفلوں میں کہتے ہیں: آئی ایم ایف نے ابھی قرضے کی قسط پاکستان کو منتقل نہیں کی،مگر پیٹرول،ڈیزل اور مٹی کے تیل میں 30روپے فی لیٹروصولی شروع ہوگئی ہے۔اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیئے ہیں۔ضروریات زندگی مہنگی ہو چکی ہیں۔تنخواہ دار طبقہ حد درجہ پریشان ہے۔کیا ہمارے حکمران اور مقتدر حلقے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کو عالمی منڈی سے سستی بجلی، سستی گیس، سستا پیٹرول اور سستی گندم خریدنے کی اجازت نہیں۔ ایران سے بجلی مل سکتی ہے لیکن امریکی ناراضگی کے ڈر سے معاہدہ کرنے کے بعد بھی نہیں خریدی جارہی۔ اگر ساری دنیا میں ایک ہی نرخ پر اشیاء دستیاب ہوتیں تب تو یہ حکمت عملی ہضم ہو سکتی تھی۔ مگر بھارت یہی اشیاء سستی خرید کر اپنے عوام کو سستے داموں پیٹرول فراہم کر رہا ہے تو پاکستان یہ کام کیوں نہیں کرسکتا؟معاشی بحران کے ساتھ پاکستان سیاسی بحران کا بھی شکار ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز ایک سے زائد قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔وفاق نے پانچ روز قبل ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند رکھے، لوگ ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکے، طے شدہ فلائٹس منسوخ کی گئیں۔دو دن بعد پھر اسی قسم کی صورت حال پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اگر حکومت نے اس بحران کا کوئی قابل قبول سیاسی حل نہ نکالا تو معمولاتِ زندگی ایک بار پھر تلپٹ ہو سکتے ہیں۔حکومت اس بدمزگی سے بچنے کا راستہ نکالے۔پی ٹی آئی کے مطالبات میں جو مطالبہ حکومت کی نظر میں غیر جمہوری محسوس ہو، اسے مسترد کر دے۔لیکن جمہوری اور آئینی مطالبات کوجمہوری حکومتیں مسترد نہیں کیا کرتیں۔مشکل حالات سے نکلنے کے لئے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، بلا تاخیر کئے جائیں۔وزیر اعظم شہباز شریف ایک تجربہ کار، معاملہ فہم اور جہاندیدہ سیاست دان ہیں ان کے اتحادی بھی سیاست کے تمام رموز سے آشنا ہیں۔جو قانون سازی حکومت چاہتی تھی،ہو چکی۔ پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھانے سمیت بڑے فیصلے ہو گئے ہیں۔پرسکون ماحول تشکیل دینے اور عوام کو ذہنی اذیت سے نکالنے کے لئے مزید کوئی فیصلہ کرنا ہے،وہ بھی کر دیا جائے، دیر نہ کی جائے۔