پی ٹی آئی اور حکومت آمنے سامنے
پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔کل بروز بدھ سہ پہر 3بجے لانگ مارچ کے شرکاء کو کشمیر ہائی وے اسلام آباد پہنچنے کی کال دی گئی ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان خیبر پختونخوا سے آنے والے احتجاجی عوام کے ہمراہ مذکورہ مقام پر موجود ہوں گے۔یہاں پہنچ کر لانگ مارچ غیر معینہ دھرنے میں تبدیل ہو جائے گا اور اپنے دو مطالبات:اسمبلیوں کی تحلیل اور 90دن میں انتخابات کا اعلان کرائے بغیر دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔حکومت (مسلم لیگ نون اور 11جماعتی مخلوط) نے فیصلہ کیا ہے اپنی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کرائے گی۔اس سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں گی اور بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔میڈیا اطلاعات کے مطابق عوام کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد پہنچنے کی توقع ہے۔حکومت نے اسلام آباد میں عام کو داخل ہونے سے روکنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے، معقول تعداد میں کنٹینرز لگانے کے ساتھ پولیس کی نفری بھی تعینات کی جا رہی ہے۔اگر فریقین کی جانب سے تحمل اور بردباری سے کام نہ لیا گیا، جیسا کہ ایسے مواقع عوام پرجوش اور جذباتی ہوتے ہیں تو تصادم کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ماضی میں ایک سے زائد مرتبہ اسلام آباد کی سڑکیں خون آلود ہو چکی ہیں اس لئے اگر انتظامیہ نے ریاستی طاقت کے ذریعے پی ٹی آئی کو خاموش کرانے والی حکمت عملی اپنائی تو خطرناک قسم کے تصادم کا خطرہ خدشے سے حقیقت میں تبدیل ہو جائے گا۔پی ٹی آئی کے مطالبات سیاسی ہیں،جمہوری ہیں۔موجودہ حکومت بھی جمہوری پارٹیوں کے پاس ہے۔چند ہفتے قبل ان11 سیاسی جماعتوں نے عدم اعتمادتحریک والا آئینی طریقہ استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجا تھا، ان دنوں بے قابومہنگائی کے ستائے عوام حکومت سے ناراض تھے، اپنی ناراضگی کا اظہار اپنی نجی محفلوں میں اور ٹی وی کیمروں کے روبرو بھرپور شدت سے کیا کرتے تھے۔حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اپنے اراکین اور وزراء بھی حکومت کی معاشی پالیسی سے نالاں تھے، علیم خان اور ترین گروپ حکومت کو گرانے کے لئے فعال ہو چکے تھے۔ان گروپوں کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ پی ٹی آئی ان (ناراض)اراکین کی مالی معاونت کے نتیجے میں ایوان میں اکثریت حاصل کر سکی تھی، انہیں چیئرمین عمران خان کا اے ٹی ایم کہا جاتا تھا۔بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا تھا کہ چیئرمین کے گھریلو اخراجات،بنی گالہ کا کچن بھی یہی لوگ چلاتے ہیں۔جہانگیر ترین کے ہوائی جہاز کا ذکر مخالفین کی زبان پر ہروقت جاری رہتا تھا۔بعض اراکین عوامی ناراضگی سے زچ ہوکر گھروں بیٹھ گئے تھے،اور یہ سمجھا جانے لگاتھا کہ پی ٹی آئی کو آئندہ الیکشن میں امیدوار نہیں ملیں گے۔لیکن 27مارچ کے اسلام آباد جلسے میں لہرائی گئی امریکی سفیر کے ارسال کردہ مراسلے کی نقل نے پاکستانی سیاسی فضاء حیران کن حد تک تبدیل کردی۔اس جلسے سے پہلے پی ٹی آئی کے اتحادی الگ ہونے کا سوچ رہے تھے،اور بعض الگ بھی ہوئے۔فضاء بدلی توعوامی مسلم لیگ کے سربراہ اورسابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ واپس لے لیا،گویا چیئرمین عمران خان کے بیانیہ سے انہیں سرنگ کے پار روشنی کی کوئی کرن نظر آگئی ہو۔ان کے تھکے ماندے قویٰ میں توانائی کا نیا کرنٹ دوڑنے لگا، لہجے میں پرانی گھن گرج لوٹ آئی۔منحرف اراکین کے خلاف عدلتی فیصلوں نے بھی ملک میں رائج ”لوٹا کریسی“پر کاری ضرب لگائی۔متأثرہ اراکین عوامی رد عمل سے بچنے کے لئے عید الفطر ادا کرنے عیدگاہ میں نہیں گئے، اپنے گھرپر ہی اہل خانہ کے ہمراہ نمازِ عید ادا کی۔پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیاد ت بھی عوامی موڈ کی اس اچانک تبدیلی کو تاحال نہیں سمجھ سکی۔ابھی تک فکرمند ہے کہ غیر متوقع صورت حال کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟ وزراء کی اکثریت میڈیا کا سامنا نہیں کر رہی۔پی ٹی آئی کے 123کے لگ بھگ استعفے بھی تاحال منظور نہیں کئے گئے۔پنجاب کی حکومت 25منحرف اراکین کے ووٹوں سے محروم ہونے کے بعد قانونی ہونے کے لحاظ سے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ گورنر پنجاب کے بارے میں معاملہ ہے اور نہیں کی درمیانی کیفیت میں ہے۔وفاقی حکومت ایک جانب آئی ایم ایف کی سبسڈی ختم کرنے کی شرائط پر فیصلے کی سوچ میں مصروف ہے اور دوسری جانب ایک دن بعد اسلام آباد میں مخالفانہ نعرے لگاتے ہوئے ایک بڑے ہجوم کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اتنی ڈھیر ساری مشکلات کابیک وقت مقابلہ مسلم لیگ نون نے ماضی میں نہیں کیا تھا۔اس کے علاوہ نون لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف بعض دیدہ اور نادیدہ سیاسی اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث لندن میں مقیم ہیں، فوری واپس نہیں آسکتے۔یہ بھی سچ ہے کہ ان کے پاس سات سمندر پار سے پارٹی چلانے کاحسب ضرورت تجربہ نہیں۔مسلم لیگ نون کے صدروزیر اعظم شہباز شریف کو مشاورت کے لئے بار بار لندن بلانا بھی آسان نہیں۔شہباز شریف نے اپنی سیاسی زندگی بطور وزیر اعلیٰ گزاری ہے۔ اس دوران انہیں بڑے بھائی(سابق وزیر اعظم) کی معاونت حاصل رہی۔ اب سارے امور انہیں ذاتی سوجھ بوجھ کے مطابق خود انجام دینے ہیں۔ایسی مخلوط حکومت بھی وہ پہلی بار چلارہے ہیں،گیارہ پارٹیوں کو بیک وقت خوش رکھنا ان کے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ڈیڑھ سال کی مختصر مدت میں پاکستان جیسے ملک کی حکمرانی ایک بڑا امتحان ہے۔مزید بر آں خطے کے تیز رفتاری سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے تقاضے معمول سے ہٹ کر ہیں۔امریکہ کی خواہش ہے کہ چین سے روابط میں ممکنہ حد تک کمی لائی جائے، روس کی یوکرین کے مسئلے پر مخالفت کی جائے۔اس سے تیل،گیس اور گندم (30فیصد سستی ہونے کے باوجود)نہ خریدی جائے۔ جبکہ بھارت اپنی غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی کے نام پر روس سے پیٹرول، گیس اور گندم رعایتی داموں پر مقامی کرنسی میں خرید رہا ہے۔ شہباز شریف ایسے
ماحول میں انکار کی ہمت خود میں نہیں پا رہے، اور شرائط من و عن تسلیم اس لئے نہیں کر سکتے کہ ملکی معیشت اورسیاست بیک وقت تصادم کے قریب پہنچی ہوئی سیاست ان کی راہ میں حائل ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فیصلوں کو ٹالا نہیں جا سکتا۔جو کرنا ہے،ہاں یا ناں میں کرنا ہے۔حالات کی ستم ظریفی تو دیکھئے وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس تقریر کرنے، تمہید بیان کرنے یا دلائل دینے کا وقت نہیں بچا۔صرف اسلام آباد میں دھرنا نہیں دیا گیا۔ملک بھر کے،ہر چھوٹے بڑے شہر میں دھرنے جو مسائل پیدا کریں گے ان کا حل بھی فوری تلاش کرنا ہے۔پورے ملک میں عوام کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے شیل نہیں برسائے جا سکتے۔سیاسی مطالبات کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا،بلا تاخیر کیاجائے۔تاخیرنقصان دہ ہوگی۔