سر بچاﺅ! نوجوانوں کی 64 فیصد آبادی کے دونوں ہاتھوں میں پتھر ہیں؟

تحریر : محمد صدیق کھیتران
جمہورکی آواز کہاں گئی ہے۔ جب تک انسانی حقوق، قوموں کے حقوق، سماجی مسائل، مذہبی انتہا پسندی اور معاشی تباہی کے ذمہ داروں کو قانون کے شکنجوں میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک فوج، جج، سول نوکر شاہی اور جاگیردار اس سماج کا چہرہ بگاڑتے رہیں گے اور اب اگر پیپلز پارٹی کو زبردستی حکومت دینی ہے تو اس سے بہتر ہے، ملک ڈیفالٹ کرجائے۔ ”اسٹیٹس کو“ سے خلفشار ہی بہتر ہے۔ تاریخ بتاتی ہے بحرانوں سے ہمیشہ مسائل کا دیرپا حل نکلتا آیا ہے۔ مسلم لیگ ن، پی پی پی، جمعیت اور تحریک انصاف ایک ہی دیگ کے چاول ہیں۔ اگر شریف خاندان، زرداری خاندان، فضل اور عمران لیڈر ہیں تو بکاﺅ مال کونسا ہے یہ مداری ہیں اور پاور پالیٹکس کے سامنے لیٹ جانے کو سیاست کہتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب لٹیرے، بدعنوان، ذہنی طور پر مفلوج لوگ ہی رہیں گے۔ اس ملک کو نئے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے جس میں موروثیت سے جان چھڑوانا اور جماعتوں کے اندر انتخابات و عہدوں کی میعاد بنیادی شرط ہونا چاہیے۔ بلوچستان عوام دشمن قوتوں کی بدمعاشیوں کا اڈا بن چکا ہے، سنجیدہ سیاسی قیادتوں کو خاص کر قوم پرست اور جمہوریت پسندوں کو انتخابی اتحاد بنا کر بلدیات سے لیکر قومی انتخاب تک مشترکہ پینل ترتیب دینے چاہیں۔ کسی تعصب کے بغیر صرف امیدوار کی قابلیت اور اس کا کردار سب کا معیار ہونا چاہیے۔ روزگار نہیں، تعلیم نہیں، صحت نہیں، بجلی پانی اور گیس غائب پھر کیا اس گند کے ٹوکرے کو سر پر رکھ کر گھومنا ضروری ہے، جس انسان کا معدہ خالی ہوگا اس کے ذہن میں چوہے دوڑیں گے۔ انسانی رویوں کا تعلق اس کی طبعی ضرورتوں، پانی اور روٹی سے ہے جب وہ نہیں ہوں گے تو وہ متبادل کا سوچے گا۔ سوچنا، کھیلنا، عبادات اور برداشت کا عمل بعد میں آتا ہے۔ مثبت سیاست اور پالیساں سماج کے ”وے فارورڈ Way forward“ کا تعین کرتی ہیں مگر بلوچستان میں انتخابات اور الیکشن سے پہلے اور بعد کے پورے عمل پر بدکرداروں کا آج بھی قبضہ ہے۔
نوجوانوں کی 64 فیصد آبادی صرف غصے میں لال پیلی نہیں ہے بلکہ ان کے دونوں ہاتھوں میں پتھر ہیں اور ان کا نشانہ ہر وہ سر اور گھر ہے جو خناس سے بھر گیا ہے۔ اپنی اپنی خیر مناﺅ سماج میں اب کوئی مقدس نہیں رہا….

اپنا تبصرہ بھیجیں