اشرافیہ کی لڑائی اگلے مرحلے میں
تحریر : انور ساجدی
قبلہ جنرل (ر) امجد شعیب دام برکاة کی گرفتاری پتہ دے رہی ہے کہ نام نہاد ”رولنگ ایلیٹ“ کی لڑائی خطرناک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ شنید میں آیا ہے کہ کئی درجن سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف محکمانہ تحقیقات مکمل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں کئی اہم گرفتاریاں متوقع ہیں۔ جنرل امجد شعیب کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر تبصرے اور وی لاگ کررہے تھے، اسی دوران انہوں نے ایک بڑی غلطی کرڈالی جس کی وجہ سے وہ گرفت میں آگئے، ان کی گرفتاری کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ اظہار رائے پر قدغن ہے، ان آوازوں میں بعض سکہ بند صحافیوں کی آواز بھی شامل ہے جبکہ آل عمران آگ بگولہ ہیں کیونکہ جنرل صاحب ایک ہائی پروفائل عمرانڈو ہیں، وہ احتجاج اس لئے کررہے ہیں کہ کہیں بڑے بڑے تحریکی وی لاگر اور اندھا دھند پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے بڑے نام دھر نہ لئے جائیں، اس کے ساتھ ہی جج صاحبان بھی شدید تقسیم کا شکار ہیں، چیف جسٹس صاحب جو بھی فل کورٹ بنائیں اختلافی معاملات آسانی کے ساتھ ختم نہیں ہونگے، حکمران اتحاد نے کئی جج صاحبان پر اعتراض کیا ہے، ان کا موقف ہے کہ ان میں سے کئی جج صاحب نواز شریف کے خلاف مقدمات کی سماعت کرچکے ہیں اور انہیں سزا دے چکے ہیں لہٰذا فل کورٹ میں ان کی شمولیت از روئے انصاف درست نہیں ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں تقسیم سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کئی سوالات اٹھائے ہیں، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ عدلیہ کا دوہرا نظام انصاف نہیں چلے گا، ان کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنائی جبکہ ایک حالیہ وزیراعظم کا رات تک انتظار کیا گیا، انہوں نے کہا کہ نہ جانے عدلیہ کو نیب کے قانون سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ نیب کا دائرہ کار عدلیہ تک لے جانا ضروری ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ عدلیہ تحریک انصاف کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہے۔ وکلاءبھی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے شدید اختلافات کا شکار ہیں یعنی اس وقت بینچ اور بار دونوں شدید قسم کی تقسیم کا شکار ہیں، ایک بات واضح ہے کہ عدلیہ نے انتخابات کی تاریخ اور دیگر معاملات کے بارے میں جو بھی فیصلے دیئے دونوں میں سے ایک فریق اسے تسلیم نہیں کرے گا، ماضی میں جب سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے تو اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جسے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے زور زبردستی اور مقتدرہ کی حمایت سے حل کرلیا تھا۔ آج صورتحال مختلف ہے، عمران خان نواز شریف سے زیادہ ضدی واقع ہوئے ہیں، وہ کسی بھی معاملے میں جلدی ہار ماننے والے نہیں ہیں، اگرچہ بظاہر مقتدرہ نے ان کی حمایت ترک کردی ہے لیکن اس کے اندر بھی ان کے مداحوں اور ماننے والوں کی کمی نہیں ہے، ان کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ بھی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، عمران خان کا کمال ہے کہ وہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں شکست وریخت شروع ہوجاتی ہے۔ وہ پہلے رہنما ہیں کہ انہوں نے اپنی معزولی کے بعد مخالفین کو تگنی کا ناچ نچایا ہے گوکہ مقتدرہ نے پروجیکٹ عمران خان کو بند کرنا شروع کردیا ہے لیکن ان کا بیانیہ عام آدمی تک سرایت کرچکا ہے جس کی وجہ سے ان کا ووٹ بینک برقرار ہے جس کی مثال جام پور کا حالیہ ضمنی انتخاب ہے جس میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے 90 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرلی جبکہ سردار فاروق احمد خان لغاری کے پوتے نے صرف 50 ہزار ووٹ حاصل کئے گوکہ اس جیت کا سہرا خاندانی اور قبائلی اثرورسوخ کے سر ہے پھر بھی اس سے تحریک انصاف کا بول بالا ہی ہوا ہے، اس کی وجہ سے حکمران اتحاد خوفزدہ ہے کہ اگر عدلیہ نے پنجاب اور پختونخوا کے انتخابات جلد کروادیئے تو پی ڈی ایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ دو صوبوں میں عام انتخابات اس سال اگست میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی ہوں لیکن عمران خان یوں آسانی کے ساتھ اپنا مطالبہ چھوڑنے والے نہیںہیں۔ حکومت کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ڈوبتی معیشت کی وجہ سے غیر مقبولیت کی معراج کو چھورہی ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور حد درجہ بیڈ گورننس نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے، اس لئے حکومت نے ایسا منصوبہ بنایا ہے کہ عمران خان انتخابات سے مائنس ہوجائیں لیکن موجودہ عدلیہ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے عمران خان کی کردار کشی کے لئے لاکھ جتن کئے لیکن ان کے پیروکار کوئی بات سننے کو تیار نہیں، اگرچہ جیل بھرو تحریک شدید ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ عمران خان کے ووٹ بینک پر اثر پڑا ہے، جیل بھرو تحریک کی ناکامی میں پی ٹی آئی کی ناتجربہ کاری کادخل زیادہ ہے۔
خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اشرافیہ کے تمام گروہ باہم دست وگریبان ہونگے اور ان کے اندر لڑائی اتنی تیز ہوجائے گی کہ اس کے نتیجے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ معاملہ ”مار کھٹائی“ تک پہنچے، مزید گرفتاریاں ہوں اورکچھ انہونی بھی ہوجائے، اگر ماضی کے حالات ہوتے تو مارشل لاءلگ جاتا لیکن مقتدرہ کا فیصلہ ہے کہ مارشل لاءنہیں لگانا، البتہ حکمران اتحاد نے سرپرستوں سے واضح طور پر کہا ہے کہ اپنے پروجیکٹ کو بند کرو اور لاڈلے کا لاڈ پیار ختم کردو ورنہ معیشت ڈوب جائے گی اور ملک دیوالیہ ہوجائے گا جس کے ذمہ دار وہ نہیں ہونگے، ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مائنس عمران خان کے فارمولے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا تو 1970ءکی طرح ایک بار پھر عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام عوام کی بے چینی، افراتفری انارکی میں بدل جائے گی۔
لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے خان آف قلات میر سلیمان خان نے قبائلی تنازعات کو حل کرنے کیلئے اپنے چچا پرنس یحییٰ بلوچ کی سربراہی میں جرگہ تشکیل دیا ہے، انہوں نے اپنے بھائی شہزادہ عمر کی جانب سے سانحہ بارکھان کے بارے میں تشکیل دیئے گئے جرگے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ صرف ایک واقعے کے بارے میں جرگہ تشکیل دینا سمجھ سے بالاتر ہے، اگر دیکھا جائے تو ایسی صورت میں جبکہ بلوچستان جل رہا ہے اور وہاں پر ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، خان صاحب کی طرف سے جرگہ تشکیل دینا مناسب نہیں لگتا، بے شک خان صاحب قبائلی تنازعات کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں لیکن بلوچستان کا مسئلہ جوکہ قومی مسئلہ ہے اور بلوچوں کیلئے زندگی اور موت کا درجہ رکھتا ہے اس کے تناظر میں سطحی اقدامات کا کیا فائدہ؟ اگر خان صاحب نے حقیقی مسئلے کونظر انداز کرکے سرداروں کو اہمیت دی تو عام بلوچ ان کے اقدامات تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی حقیقی قیادت ان کی کوئی بات مانے گی، خان صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس وقت بلوچستان کا مسئلہ کس نہج پر ہے اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کس مقصد کے لئے جلاوطن ہوئے تھے۔ بدقسمتی سے جلا وطن رہنماﺅں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے وہ موثر نہیں رہے بلکہ اصل طاقت وہ نوجوان ہیں جو میدان میں رہ کر صورتحال سے نبرد آزما ہیں، ان کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی قدم موثر ثابت نہیں ہوگا۔
خان کو علامتی سربراہ اور سفید ریش کی حیثیت سے حالات کا ادراک کرنا چاہئے اور اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے، خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عالمی عدالت انصاف ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ہے جو لندن سے زیادہ دور نہیں ہے۔